History Taqleed Kya Hai,kya Taqleed Durust Hai ??

  • Work-from-home

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Hummmm @i love sahabah bhai
aap khud hi to taqleed ko ghalat
saabit kar chuke hain apne is last post se
kyunke aap ne Imam Abu Hanifa rahemullah alaehe
ke qoul ko jhutla kar Quran ke ayaah aur ahadeeth
peish kiye aur aapke hisab se to aap ne Quran
ke ayah ki bhi khilaf warzi hi kar di kyunke Quran
me talqeed (bina daleel ke qabuliyat) ka hukm hai
so aapne muqallid hote huwe aisa qat'an nahin kiya

doosri baat pyare bhai mene nahin kaha ke aap baat
ghumane wale ho ya aap ne ghumaiy hai mene kaha ke
aap ne baat is tarah se ki to mujhe aise laga
I really respect you like a brother : )

teesri baat:aapne jo ayaah o ahadeeth peish kiye
bhai jan unme ijazat aur hukm itbah ka hai jo ke
tehqeeq aur ilm hasil karne ke baad wo bhi daiayl ke
saath hoti hai choonke is baat ka sabut us ayah me
hum de chuke hain ke Bina sanad wali bata ko
qabol karna haram hai aur jis baat ka ilm na ho
use maanna bhi mamnooh hai,baaqi agar kisi bhi
tarah ki behes se aapko kuch bura laga ho to maazrat
me is post ke saath behes ko khatam karna chahta hun
aur aap se bhi is hi ki guzarish hai

mujhe behes waghera se ab mukammal taur pe fursat chahiye
kam az kam khud to nahin parna behes me
kyunke isse baat bohot bigarh jati hai aur ghalat fehmiyan
paida ho jaati hain so isse behetter hai ke INSHA'ALLAH
behes hi naa karun kabhi @i love sahabah .
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
چراغ بھائی یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ قران اور حدیث پیش کرنے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جھٹلایا گیا ہے یا قران کی آیت پیش کرنا اپنے امام جو جھٹلانا ہے اور تبھی اسی وجہ سے کچھ لوگوں کے دلوں میں ائمہ کرام کی عزت نہیں رہتی کیونکہ وہ خود کو ان ائمہ سے بہتر اور افضل سمجھتے ہیں اور آج کل کے نام نہاد قرآن اور حدیث کے دعوے داروں کا یہی طرز عمل ہے تبھی اپنے حسد اور بغض میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر تک کہتے ہیں
اس وسوسے کا جواب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ دے چکے ہیں جو میں پہلے ایک بار پیش کر چکا ہوں اس لئے کسی کے کہنے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ گمراہ ثابت ہوتے ہیں اور نہ قرآن اور حدیث کے مخالف.

باقی میں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ جب اختلافی پوسٹ کی جائیں گی تو بحث ہو گی اور بات بہت آگے جائے گی لیکن فورم کی انتظامیہ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور پھر بس یہ قانون بن گیا کہ صرف قرآن اور حدیث ہی پیش کرو اور یہ بھی صرف احناف کے لئے ورنہ باقی لوگ قران اور حدیث کا نام لے کے بھلے جتنے علماء کے اقوال پیش کر تے رہیں کوئی مسئلہ نہیں.

آپ نے قران اور حدیث کو مانگا تھا جو میں نے پیش کیا اور اب آگے آپ نے بحث نہیں کرنی تو ٹھیک میں اور کچھ پیش نہیں کرتا.
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
چراغ بھائی یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ قران اور حدیث پیش کرنے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جھٹلایا گیا ہے یا قران کی آیت پیش کرنا اپنے امام جو جھٹلانا ہے اور تبھی اسی وجہ سے کچھ لوگوں کے دلوں میں ائمہ کرام کی عزت نہیں رہتی کیونکہ وہ خود کو ان ائمہ سے بہتر اور افضل سمجھتے ہیں اور آج کل کے نام نہاد قرآن اور حدیث کے دعوے داروں کا یہی طرز عمل ہے تبھی اپنے حسد اور بغض میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر تک کہتے ہیں
اس وسوسے کا جواب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ دے چکے ہیں جو میں پہلے ایک بار پیش کر چکا ہوں اس لئے کسی کے کہنے سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ گمراہ ثابت ہوتے ہیں اور نہ قرآن اور حدیث کے مخالف.
باقی میں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ جب اختلافی پوسٹ کی جائیں گی تو بحث ہو گی اور بات بہت آگے جائے گی لیکن فورم کی انتظامیہ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور پھر بس یہ قانون بن گیا کہ صرف قرآن اور حدیث ہی پیش کرو اور یہ بھی صرف احناف کے لئے ورنہ باقی لوگ قران اور حدیث کا نام لے کے بھلے جتنے علماء کے اقوال پیش کر تے رہیں کوئی مسئلہ نہیں.
آپ نے قران اور حدیث کو مانگا تھا جو میں نے پیش کیا اور اب آگے آپ نے بحث نہیں کرنی تو ٹھیک میں اور کچھ پیش نہیں کرتا.
Wa'alaikumussalaam Mohsin bhai ye meri ghalat fehmi nahin aapke alfaaz the
aur mene aap se Qurani ayaah dalaaiyl ke taur per nahin maange the
khairrrrrr aapko ab ISLAMIC section me post hone wale koi bhi thread aisa lage
jo ke najaiyz ho ghalat ho aap simply mujhe ya phir @Dawn brother pm kar dein
ya phir sirf report kar dein hum us post per INSHA'ALLAH aapki raza mandi
aur TM rules ke mutabiq action lene ka waada karte hain INSHA'ALLAH
aap subhi ke TM intizaamaiya se shikayaat khatam ho jaaengen : ) @i love sahabah .
 
  • Like
Reactions: Star24

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "
[سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; (جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام]​
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.
عن هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ : " سُئِلَ أَبُو مُوسَى ، عَنْ بِنْتٍ ، وَابْنَةِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ ، فَقَالَ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ ، وَلِلْأُخْتِ النَّصْفُ " ، وَأَتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعْنِي ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى ، فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ " أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لِلْابْنَةِ النِّصْفُ ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ " . فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى ، فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ . [صحيح البخاري » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: 6269]
ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن_مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- روایت کیا اس کو بخاری، ابو داود اور ترمذی نے
فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید_شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.
جن کی تقلید سے روکا گیا ہے وہاں یہ قید لگائی ہے کہ وہ باپ دادا بےدین ہوں تو بےدینی میں ان کی تقلید (اتباع) نہ کرو، بےعقل ہوں تو بے عقلی میں ان کی تقلید نہ کرو. ان آیات کو آئمہ_اربعہ (چار ٤ اماموں) کی تقلید میں پیش کرنا گویا ان کو گمراہ، بے-عقل و بے-ہدایتے اور جاہل ماننا ہے، جو یقیناً خود جہالت و ظلم ہے.
وعلیکم السلام و جزاک اللہ عزوجل و احسن الجزاء فی الدارین
مذکورہ بالا اول الذکر حدیث پاک میں کتاب اللہ و سنت رسول جو کہ اولیں حجت شرعیہ ہیں کے ساتھ ساتھ "( قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو) انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا" اجتھاد کے دلیل شرعی ہونے کا ثبوت ہے جس پر "( لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ) جس سے رسول اللہ راضی ہیں" رسول اللہ کی خوشنودی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اجتھاد کرنے والے مجتھد کے قول کو شرعی حجت سمجھیں اور اس کے قول پر عمل کر کے اہل یمن کے اصحابہ کے طریقے پر چلیں، اگر ہر شخص معتبر اجتھاد کرنے کے قابل ہوتا تو اہل یمن کے اصحابہ بھی اپنی مرضی سے قرآن و حدیث سے مسائل کا حل نکالنے کا ہم سے زیادہ حق رکھتے تھے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن پر اک ہی صحابی کو مقرر فرمایا، پھر اہل یمن یہ بھی تو کر سکتے تھے کہ قرآن و سنت میں کوئی حکم نہ پا کر بجائے معین مجتھد سے رجوع کرنے کے یمن سے سفر کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور شرعی حل پا لیتے کہ کتاب اللہ و سنت حجت شرعی ہے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اک ایسے حاکم کا مقرر کر فرمانا جو مجتھد تھا یہ ثابت کر رہا ہے کہ معتبر مجتھد کا قول بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے شرعی مسائل کے حل کے لیے مجتھد کے قول پر اعتمار کرنا خلاف قرآن و حدیث نہیں
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
وعلیکم السلام و جزاک اللہ عزوجل و احسن الجزاء فی الدارین
مذکورہ بالا اول الذکر حدیث پاک میں کتاب اللہ و سنت رسول جو کہ اولیں حجت شرعیہ ہیں کے ساتھ ساتھ "( قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو) انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا" اجتھاد کے دلیل شرعی ہونے کا ثبوت ہے جس پر "( لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ) جس سے رسول اللہ راضی ہیں" رسول اللہ کی خوشنودی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اجتھاد کرنے والے مجتھد کے قول کو شرعی حجت سمجھیں اور اس کے قول پر عمل کر کے اہل یمن کے اصحابہ کے طریقے پر چلیں، اگر ہر شخص معتبر اجتھاد کرنے کے قابل ہوتا تو اہل یمن کے اصحابہ بھی اپنی مرضی سے قرآن و حدیث سے مسائل کا حل نکالنے کا ہم سے زیادہ حق رکھتے تھے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن پر اک ہی صحابی کو مقرر فرمایا، پھر اہل یمن یہ بھی تو کر سکتے تھے کہ قرآن و سنت میں کوئی حکم نہ پا کر بجائے معین مجتھد سے رجوع کرنے کے یمن سے سفر کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور شرعی حل پا لیتے کہ کتاب اللہ و سنت حجت شرعی ہے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اک ایسے حاکم کا مقرر کر فرمانا جو مجتھد تھا یہ ثابت کر رہا ہے کہ معتبر مجتھد کا قول بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے شرعی مسائل کے حل کے لیے مجتھد کے قول پر اعتمار کرنا خلاف قرآن و حدیث نہیں
Ab is post ka khoob jawab hum bhi de sakte hain @arifmaqsood1125 bhai
lekin hona ye hai ke phir aap ne bhi jawab dena hai
magar saare behes ka faiyda nahin aana
so modbana arz hai ke behes ko tark karte huwe
mauzu ko ikhtitaam per laate hain : )
aur khamoshi ikhtiyar karte hain sub hi .
 
  • Like
Reactions: Star24

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
چراغ بھائی سب سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اختلاف اپنی جگہ لیکن اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو جہنمی کہنا اور قرآن اورحدیث کا دشمن کہنا کون سی تحقیق سے ثابت ہے.......
جب مسلمانوں کے سب سے بڑے مسلک کو قران اور حدیث کا دشمن اور جہنمی کہا جائے گا تو اس کے جواب ملنے پہ کسی کو کئی اعتراض نہیں ہونا چائیے.
یا تو اس فورم کے محققین واضح بتا دیں کہ احناف مقلدین کو ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے قادیانی یا شیعہ یا منکر حدیث ہیں تو پھر بات واضح ہو جائے.
آپ نے کچھ علماء کے حوالے دئیے تو بھائی ان میں سےا کثر تو خود مقلد ہیں. اگر تقلید اتنی ہی ناجائز اور حرام ہے تو شاہ ولی اللہ خود حنفی کیوں ہیں. علامہ شامی رحمہ اللہ خود حنفی کیوں ہیں. شیخ جیلانی رحمہ اللہ حنبلی کیوں ہیں، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ حنبلی کیوں ہیں...
چند علماء نے امام بخاری رحمہ اللہ کو بھی شافعی مقلد کہا ہے تو کیا یہ اکابرین بھی غلط ہو گئے.
یہاں اس فورم پہ کئی بار یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس فورم پہ کوئی شافعی، مالکی یا حنبلی نہیں ہے اور جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا تقلید صرف اس فورم کے ممبران پہ حرام ہے کیا.......... جب بات تقلید کی ہے تو پھر اس میں سب آئیں گے بھلے وہ شاہ ولی اللہ حنفی رحمہ اللہ ہوں، یا عبدالقادر جیلانی حنبلی رحمہ اللہ یا امام بخاری شافعی رحمہ اللہ لیکن گمراہ صرف احناف کو کہا جاتا ہے.
اگر مقلد ہونے سے مراد پٹہ ڈالنا ہے تو کہہ دیجئیے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیوںکہ وہ بھی مقلد تھے،
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیونکہ وہ بھی مقلد تھے. خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیونکہ وہ بھی مقلد تھے.
اور ایسے مقلد اکابرین آپ کو ہزاروں مل جائیں گے.​
چند اکابرین کے حوالے میں بھی پیش کر رہا ہوں تقلید پہ.
================
علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی.
عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ.
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں...
کہ"تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(سورہ الاعراف:٣). اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں"(٢:١٧٠), اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام_حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر..."(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام_شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.
٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے. اللّہ تعالیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)
حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگۓ، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.
مومن (اسلام کا علم رکھتے ماننے والے) باپ دادا کی اتباع:
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے...(٥٢:٢١)
[الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٣،علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]
علامہ خطیب بغدادی (شافعی) رح غیر مجتہد (عامی) پر تقلید کا وجوب بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
بعض معتزلہ سے (یہ نظریہ) منقول ہے کہ ان کے نزدیک عامی (عوام) کے لئے بھی عالم کے قول پر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اسے حکم کی علت (وجہ و سبب) کا علم نہ ہوجاۓ،........اور یہ مسلک بلکل غلط ہے، اس لئے کہ عامی کے پاس حکم کی علت معلوم کرنے کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں ہے کہ وہ سالہا سال فقہ کی تعلیم حاصل کرے، طویل مدت تک فقہاء کی صحبت میں رہے، قیاس کے طریقوں کی پوری تحقیق کرے اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ کونسا قیاس صحیح اور کونسا فاسد ہوتا ہے؟ اور کس دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم رکھنا چاہیے؟ اور تمام لوگوں کو اس محنت کا مکلف کرنا "ما لایطاق" ہے یعنی جس کی ان میں قدرت نہیں اور اس (تقلید_مجتہد) کے سوا کو راستہ نہیں. [الفقیہ والمتفقه للخطیب : ٢/٦٩
================
امام شاطبی رحمہ الله اپنی کتاب " الموافقات " میں فرماتے ہیں کہ
فتاوى المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين ، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء ، إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئا ، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ، ولا يجوز ذلك لهم ألبتة ، وقد قال تعالى : ( فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) ، والمقلد غير عالم ، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر ، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق ، فهم إذًا القائمون له مقام الشارع ، وأقوالهم قائمة مقام الشارع "الموافقات" (4/292 انتهى
يعنى مجتھدين كے فتاوى جات عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا ان پڑھ لوگوں كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون
اگر تمہيں علم نہيں تو تم اہل علم سے دريافت كر ليا كرو : اور مقلد چونکہ عالم نہیں ہے ، اس ليے اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقا اہل علم ہى احكام دين ميں مرجع ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائم مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائم مقام ہيں
================
علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله بہت جلیل القدرامام ہیں
ان کا ایک فیصلہ اورفتوی ملاحظہ کریں ، فرماتے ہیں کہ
" وأمـا التـقـليـد في الفـُروع فهُـو جـائـز إجـمـاعًــا "
یعنی فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید بالاجماع جائز ہے ۰
یہ نہیں فرمایا کہ میرے نزدیک یا فلاں شیخ وامام کے نزدیک تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پرإجـمـاع نقل کر رہے ہیں ، اوریہ اجماع بهی چهٹی صدی میں نقل کر رہے ہیں ، اور مزید فرماتے ہیں کہ
" فلهذا جـاز التقليد فيـها، بل وجب علـى العـامـي ذلك "
لہذا فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید نہ صرف یہ کہ بالاجماع جائز ہے ،
بلکہ عـَامـي شخص پر تقلید واجب ہے ۰ [ انظر الروضة ص 206
================
اسى طرح شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
" وتقـليـد العـاجـز عن الاستدلال للعـالم يجـوز عند الجمهور "
اور استدلال (واجتہاد) سے عاجز شخص کے لیئے جمہور علماء کے نزدیک عالم کی تقـليـد جائز ہے ۰ { انظر مجموع فتاوى ابن تيمية جـ 19 ص 262
================
الشيخ حمد بن ناصر بن معمرالنجدي شیخ محمد بن عبد الوهاب کے شاگرد ہیں ، وه فرماتے ہیں کہ
من كان من العوام الذين لا معرفة لهم بالفقه والحديث، ولا ينظرون في كلام العلماء، فهؤلاء لهم التقليد بغير خلاف، بل حكى غير واحد إجماع العلماء على ذلك اهـ
وه عام لوگ جن کو فقہ وحدیث کی معرفت حاصل نہیں ہے ، اور علماء کے کلام میں نظر ( واستدلال وتطبیق وغیره ) کی صلاحیت نہیں رکهتے ، توان لوگوں کے لیئے بلا اختلاف تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا ہے ۰
{ انظر مجموعة الرسائل والمسائل النجدية ، رسالة الاجتهاد والتقليد جـ2 ص 7 و ص 21 و ص 6 }
شیخ محمد بن عبد الوهاب نجدی کے بیٹے شیخ حسين، وشیخ عبد الله فرماتے ہیں کہ ، جب آدمی کو حدیث اورکلام علماء اوراقوال کے ترجیح کی معرفت حاصل نہ ہو تو اس کا وظیفہ اور ذمہ داری أهلُ العلم کی تقلید ہے ۰
إذا كان الرجل ليس له معرفة بالحديث، وكلام العلماء، وترجيح الأقوال، فإنما وظيفته : تقليد أهل العلم، قال الله تعالى{ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} سورة النحل: 43." الدرر السنية 4/ 14 ، 15
================
نواب صدیق حسن خان کہتے ہیں کہ
عام آدمی پہ مجتہد کی تقلید اور اس کے فتوی کو لینا واجب ہے“ (لقطة العجلان ، صفحہ 306
================
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سيدنا امام احمد بن حنبل كے مقلد تھے جيسا كه آپ كي كتاب مستطاب غنيۃ الطالبين كي درج ذيل عبارات سے ثابت هوتا هے:
هو مذهبُ امامِنا حمدَ بنِ محمّد بنِ حنبل رحمه اللّٰه تعاليٰ ﴿45 2﴾
اور يهي همارے امام احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مذهب هے۔
عند امامنا حمد رحمه الله تعاليٰ ﴿45 2﴾
يه همارے امام احمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مسلك هے۔
وَقَد نَصَّ الا مامُ حمدُ رحمه اللّٰه۔ ﴿43 1﴾
امام احمد رحمه الله تعاليٰ نے يه صراحت فرمائي هے۔
الا مام حمدَ بنَ حَنبل قال ﴿47 1﴾
اس ليے كه امام احمد نے فرمايا ۔
لا نّه رُوي نّ ال مام حمدَ بنَ حنبل قال
اس ليے كه امام احمد بن حنبل سے يه روايت هے كه آپ نے فرمايا۔
اس طرح كي عبارات غنيۃ الطالبين ميں بے شمار مقامات پر هيں جن سے عياں هوتا هے كه آپ سيدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ الله عليه كے مقلد تھے، كيوں كه اپنے بيان كرده مسائل كو ان كي طرف منسوب كرنا، ان كے مذهب كو نقل كركے اسے بر قرار ركھنا، اسے اختيار كرنا اور ان سے استناد فرمانا شان تقليد هے۔ مقلد كا كام هے نقل مذهب، اور اس كي دليل هے قول امام، اس كے مظاهر غنيۃ الطالبين ميں كھلي آنكھوں سے جا بجا مشاهده كيے جا سكتے هيں، يهاں تك كه آپ نے ايك مقام پر امام ممدوح عليه الرحمه كے مذهب پر هي وصال پانے كي دعا فرمائي هے۔ الفاظ يه هيں:
قال الامام بوعبدِ اللّٰه حمدُ بنُ محمّدِ بنِ حنبل الشّيباني رحمه اللّٰه و مَاتَنَا علي مذهبه صلًا و فرعًا وحَشَرَنا في زُم رَتِه يه
قول امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيباني كا هے الله عز و جل ان پر رحم فرمائے اور هميں ان كے مذهب كے اصول و فروع پر وفات دے، اور قيامت كے دن هميں ان كے زمرے ميں اٹھائے۔﴿105 2غنيۃ﴾
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ [ذیل الطبقات ۱/۲۹۸، شذرات الذہب ۴/۱۰۰]۔
================
حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ
واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ،
الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، }
اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ
مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ،
وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 }
================
امام غزالی(حنبلی) رح فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع_صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل_ضروریات_دین ثابت ہے"[المستصفى:٢/٣٨٥]
================
امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں
ومن زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا ، فهو قول فاسق عند اللَّه ورسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف.
وهذه المذاهب والأقاويل التي وصفت مذاهب أهل السنة والجماعة الآثار ، وأصحاب الروايات ، وحملة العلم الذين أدركناهم وأخذنا عنهم الحديث ، وتعلمنا منهم السنن ، وكانوا أئمة معروفين ثقات أصحاب صدق ، يقتدى بهم ويؤخذ عنهم ، ولم يكونوا أصحاب بدعة ، ولا خلاف ولا تخليط ، وهو قول أئمتهم وعلمائهم الذين كانوا قبلهم.
جو شخص یہ زعم (گمان) کرے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ، تو یہ قول الله و رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ایک فاسق (نافرمان) کا قول ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادیث_صحابہ و تابعین) کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہے، اور اپنی راۓ سے تفرد، کلام ، بدعت اور مخالفت کرنا
چاہتا ہے.
یہ اقوال و مذاھب جو میں (مصنف_کتاب امام ابن ابی یعلی رح) نے ماسبق میں ذکر کیے ہیں، خوبی ہے مذھب_اہل_سنّت والجماعت اور آثار، اور اصحاب الروایات کی. جور ان ارباب_علم کے جن کو ہم نے پایا، اور جن سے ہم نے علم_حدیث حاصل کیا، اور جن سے سنن کی تعلیم حاصل کی، وہ معروف ائمہ (دین) تھے، لائق_اعتماد، سچے لوگ تھے، جن کی اقتدا (تقلید و پیروی) کی جاتی اور ان سے (دین) لیا جاتا تھا، اور وہ بدعت والے نہ تھے، اور نہ مخالفت اور گڑبڑ پیدا کرنے والے تھے. اور یہی قول ان سے پہلے ائمہ دین کا ہے، اس لئے تم بھی اس کو مضبوطی سے پکڑلو. الله تم پر رحم کرے اور تمہیں بھی وہی علم دے جو علم انھیں دیا اور الله کی توفیق سے.
{طبقات الحنابلہ, امام ابن ابی یعلی رح, جلد 1 صفحہ 65،66
================

ابوزید قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی نے مقلد کی مذمت کرتے ہوئے کہا: تقلید کا ماحصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں چوپایوں کے ساتھ ملادیتا ہے.....اگر مقلد نے اپنے آپ کو جانور اس لئے بنالیا ہے کہ وہ عقل وشعور سے پیدل ہے تو اس کا (دماغی) علاج کرانا چاہیے۔(تقویم الادلہ فی اصول الفقہ،صفحہ 390)
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
ابوزید قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی نے مقلد کی مذمت کرتے ہوئے کہا: تقلید کا ماحصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں چوپایوں کے ساتھ ملادیتا ہے.....اگر مقلد نے اپنے آپ کو جانور اس لئے بنالیا ہے کہ وہ عقل وشعور سے پیدل ہے تو اس کا (دماغی) علاج کرانا چاہیے۔(تقویم الادلہ فی اصول الفقہ،صفحہ 390)
ناب سب سے پہلی بات کہ قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی خود بھی مقلد ہیں اور مقلدین آپ کے نزدیک جہنمی ہیں اور قرآن، حدیث کے دشمن تو ذرا یہاں بتا دیں کہ قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی جہنمی اور قران، حدیث کے دشمن ہیں یا نہیں.

یہ فورم کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ آپ کے اس فورم کا اصول صرف قرآن اور حدیث ہے تو یہ پوسٹ فورم کے اصول کے خلاف ہے.
اب کیونکہ پوسٹ آپ کی ہے تو شاید اصول کے خلاف نہ ہو البتہ کوئی حنفی اگر کسی عالم کا قول پیش کر دے تو وہ آپ کو قرآن اور حدیث کے خلاف بھی لگتا ہے اور فورم کے اصول کے خلاف بھی.
اگر یہ پوسٹ اصول کے خلاف نہیں ہے تو پھر میں نے پہلے بھی کئی اکابرین کے حوالے دئیے ہیں تقلید پہ ذرا وہ دیکھ لیجئیے گا.
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
ناب سب سے پہلی بات کہ قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی خود بھی مقلد ہیں اور مقلدین آپ کے نزدیک جہنمی ہیں اور قرآن، حدیث کے دشمن تو ذرا یہاں بتا دیں کہ قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی جہنمی اور قران، حدیث کے دشمن ہیں یا نہیں.
یہ فورم کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ آپ کے اس فورم کا اصول صرف قرآن اور حدیث ہے تو یہ پوسٹ فورم کے اصول کے خلاف ہے.
اب کیونکہ پوسٹ آپ کی ہے تو شاید اصول کے خلاف نہ ہو البتہ کوئی حنفی اگر کسی عالم کا قول پیش کر دے تو وہ آپ کو قرآن اور حدیث کے خلاف بھی لگتا ہے اور فورم کے اصول کے خلاف بھی.
اگر یہ پوسٹ اصول کے خلاف نہیں ہے تو پھر میں نے پہلے بھی کئی اکابرین کے حوالے دئیے ہیں تقلید پہ ذرا وہ دیکھ لیجئیے گا.

agar apko meri post forum ke usool ke khilaaf lag rahi hy to phir aap ki har post delet karni paregi kyun ke aap ki posts me to na quran ki aayat rehti hy na sahih hadees aur baki apke dusre muqqalideen ki posts bhi saari ki saari delet honi chahie

agr meri post me mohsin bhai ke dawe ke hisab se intezamia ko lage ke galat hy to phir my in sab muqallideen ki posts pe bhi wahi lagu karne ko kahunga

shukria
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
agar apko meri post forum ke usool ke khilaaf lag rahi hy to phir aap ki har post delet karni paregi kyun ke aap ki posts me to na quran ki aayat rehti hy na sahih hadees aur baki apke dusre muqqalideen ki posts bhi saari ki saari delet honi chahie

agr meri post me mohsin bhai ke dawe ke hisab se intezamia ko lage ke galat hy to phir my in sab muqallideen ki posts pe bhi wahi lagu karne ko kahunga

shukria
janab agar forum k es rule ko dekh lain to MUQALIDEEN k hi nain balk muqalideen k mukhalifeen k bhi wo topics close hun ge jo banaye hi srif hanfi muqalideen k liye hain..........
Agar forum admin ne jo bhi topic quran aor hadees k hawaly k beghair hay wo close kiye to phir shoor aap zayada karin ge k aap k topics close ho gye jo aap ne ahnaf k khilaf quran aor hadees k naam se banaye hain.
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Humrahi

Active Member
Jun 18, 2012
291
243
743
!!India!!
Is baat se kisi Musalman ko Inkar nahi hosakta ke DEEN ki Asal Dawat ye hai ke sirf ALLAH TA'ALA aur Allah ke Rasool(Sallallahu Alaihi wasallam ) ki ITA'AT ki jaye.
Kaunsi cheez Halal?
Kaunsi cheez Haram?
Kya Jayaz hai?
Kya Najayaz hai?
In Tamam Maamlaat me KHALIS ALLAH or Uske Rasool (sallallahu alaihi wasallam) ki ITA'AT karni hai aur Jo Shaqs Allah aur uske Rasool(Sallallahu Alaihi Wasallam) ke Bajai kisi aur ki ITA'AT karne ka Qayal ho wo Yaqeenan ISLAM ke Dairey se Kharij hai.
Islye Har Musalman ke lye Zaroori hai ke Wo Quran o Sunnat ke Ehkaam ki ITA'AT kare.

Lekin!
Quran o Sunnat me Baaz Ehkaam to aise hai ke Jinhe Mamooli padha likha Admi bhi samajh sakta hai, unme koi IJMAAL ya Ta'aruz nahi hai, balke Jo Shaqs bhi unhe padhega wo kisi Uljhan k baghair un ka Matlab samajh lega
Jaise Quran me hai
"TUM ME SE KOI KISI KO PEETH PEECHE BURA NA KAHE"(49:12)
Aise Ehkaam har shaqs jo Mamooli padha likha ho samajh sakta hai.

Iske bar Khilaf bhot se Ehkaam aise hai
Jin me IJMAAL paya jata hai, or kuch aise hain jo Quran hi ki kisi Dusri Ayat ya Ap(Sallallahu alaihi wasallam) hi ki kisi Dusri Hadis se Muta'raz hote hain.
Jaise:-
Ek hadis me Ap(Sallallahu Alaihi wasallam) ka irshad hai
"JIS SHAQS KA KOI IMAM HO TO IMAM KI QIRAT USKE LYE BHI QIRAT BAN JAYEGI"
(IBNE MAJA)


Is se Maloom hota haitke Jab Imam Qirat kar raha ho to MUQTADI ko Khamoosh Rehna chahye,
Doosri taraf Ap(sallallahu alaihi wasallam) hi ka Irshad hai
"Jis shaqs ne Sure Fatiha na padhi uski Namaz nahi hogi."
(BUQARI)


Isse Maloom hota hai k Har Shaqs ke lye Sure Fatiha padhni zaroori hai. In dono Hadiso ko Peshe Nazar rakhte hote hue ye SAWAL paida hota hai ke aaya pehli Hadis ko Asal Qarar dekar yu kaha jaye ke Dusri Hadis me Sirf IMAM O MUNFARID murad hai., ya Dusri Hadis ko Asal Qarar dekar yu kaha jaye ke Sure Fatiha padhni zaroori hai.

Ab Is tarah ke Ehkaam me ek Surat to ye hai ke hum Apni Samajh par Aetemad kar k is Qisam ke Maamlat me khud koi Faisla karlen aur uspar Amal karen


Aur
Dusri Surat ye hai k hum apni Aqal pe bharosa karne ki bajae ye dekhen k Quran o Sunnat ke In Irshadaat se Hamare JALEELUL QADR ASLAAF jo Nabawi daur se Qareeb the aur hum se ziada ILM O TAQWA waale the wo kya samjhe.
Agar Insaf o Haqeeqat pasandi ke sath kaam lya jaye to pehli Surat badi khatarnaak hai aur Dusri Surat bhot Ehtyat wali aur Nafs ko maarne wali hai.

In Tamam baato ka Lihaaz rakh kar dekha jaye to Quran o Sunnat ke wo Irshadaat jin me Ta'ruz nazar ata ho usme apni Aqal pe bharosa karne ki bajae hamare Aslaaf ki TEHQEEQ par bharosa kya jaye to jab ye kaha jayega ke Ap FALAAN IMAM ki TAQLEED karte hai.

TAQLEED

To in baato se ye baat wazeh hojati hai k Kisi IMAM ya MUJTAHID ki TAQLEED ka Matlab ye hargiz nahi hai ke use Bazaate Khud WAJIBUL ITA'AT samajh kar ITA'AT ki jarahi hai, ya usey SHARYAT BANANE WALE ka darja dekar uski har baat ko Wajibul Itteba samjha jaraha hai, balke Iska Matlab sirf ye hai ke ITTEBA to QURAN O SUNNAT ki Maqsood hai lekin Quran o Sunnat ki Murad ko samajhne ke lye Ba haisyat SHAAREH unki Bayan o Tashreeh par Aetmad kya jata hai.
Ye baat ISTILAHE TAQLEED ke Mafhoom me Dakhil hai.

TAQLEED :-
Us Shaqs ke Qaul par Baghair HUJJAT AMAL karna hai, Jiska Qaul HUJJAT nahi.(ALLAMA IBNE HUMAM)
Is tareef ne Wazeh kardya ke MUQALLID IMAM ke Qaul ko Sharyat nahi balke Quran o Sunnat ki Tashreeh samajhta hai.

Ab aplog Insaf ki Nazar se Ghaur farmayye ke is Amal me Kaunsi baat Aisi hai jise GUNAH YA SHIRK kaha jaye.
Agar koi shaqs kisi IMAM ko SHAARE'(SHARYAT BANANE WALA) samajhta ho to beshak us Amal ko SHIRK kaha jasakta hai.

Taufeeq to Allah hi dene wala hai.
 

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
janab agar forum k es rule ko dekh lain to MUQALIDEEN k hi nain balk muqalideen k mukhalifeen k bhi wo topics close hun ge jo banaye hi srif hanfi muqalideen k liye hain..........
Agar forum admin ne jo bhi topic quran aor hadees k hawaly k beghair hay wo close kiye to phir shoor aap zayada karin ge k aap k topics close ho gye jo aap ne ahnaf k khilaf quran aor hadees k naam se banaye hain.
quran aur hadees par amal karne ki dawat quran hadees se di jaati hy aur quran hadees ke mukhalifeen ki haqeeqat unke kitabon ke aine se dikhai jaati hy samjhe????????
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
quran aur hadees par amal karne ki dawat quran hadees se di jaati hy aur quran hadees ke mukhalifeen ki haqeeqat unke kitabon ke aine se dikhai jaati hy samjhe????????
forum ka rule hay sirf quran aor hadees to phir ksi aalim ka hawala dena hi rule k khilaf hay bhaly wo hanfi ho ya naam nihad ahlehadees.
aor agar quran aor hadees k mukhaifeen ki haqeqat un ki books se pesh karna allow hay to phir jis firqy ko hm quran aor hadees ka mukahlif samjhty hain os k hawaly de sakty hain.
phir har koi ksi bhi aik firqy k ulama k hawaly de kar keh sakta hay k ye hawaly quran aor hadees k khilaf hain.
kyun k aap ne quran aor hadees ka naam le kar itraaz sirf ahnaf pe karna hay to rule main ye likhwa dain k AHNAF k elawa ksi firqy k khilaf baat karna mana hay ta k aap khul k ahnaf k khilaf likh sakin aor hawaly de sakin.
aor islam section main aany waly new members ko bhi pata chal saky k yahan quran aor hadees ka naam le kar sirf ahnaf k khilaf post karna allow hay baaqi ksi firqy k khilaf nahin hay.
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "
[سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; (جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام]​
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.
.
اس حدیث پر عارف بھائی کا تبصرہ یہ تھا
مذکورہ بالا اول الذکر حدیث پاک میں کتاب اللہ و سنت رسول جو کہ اولیں حجت شرعیہ ہیں کے ساتھ ساتھ "( قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو) انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا" اجتھاد کے دلیل شرعی ہونے کا ثبوت ہے جس پر "( لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ) جس سے رسول اللہ راضی ہیں" رسول اللہ کی خوشنودی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اجتھاد کرنے والے مجتھد کے قول کو شرعی حجت سمجھیں اور اس کے قول پر عمل کر کے اہل یمن کے اصحابہ کے طریقے پر چلیں، اگر ہر شخص معتبر اجتھاد کرنے کے قابل ہوتا تو اہل یمن کے اصحابہ بھی اپنی مرضی سے قرآن و حدیث سے مسائل کا حل نکالنے کا ہم سے زیادہ حق رکھتے تھے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن پر اک ہی صحابی کو مقرر فرمایا، پھر اہل یمن یہ بھی تو کر سکتے تھے کہ قرآن و سنت میں کوئی حکم نہ پا کر بجائے معین مجتھد سے رجوع کرنے کے یمن سے سفر کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور شرعی حل پا لیتے کہ کتاب اللہ و سنت حجت شرعی ہے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اک ایسے حاکم کا مقرر کر فرمانا جو مجتھد تھا یہ ثابت کر رہا ہے کہ معتبر مجتھد کا قول بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے شرعی مسائل کے حل کے لیے مجتھد کے قول پر اعتمار کرنا خلاف قرآن و حدیث نہیں

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِى عَوْنٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَخِى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
یہ اس کی سند ہے
پہلی بات.... اس روایت میں ہے ’’عن أناس من أہل حمص‘‘ .. یہ ’’اناس‘‘ (چند لوگ) کون ہیں؟؟؟
اس روایت میں ... أبو عون محمد بن بن عبيد الله الثقفي ہے.......... مجھول راوی
الحارث بن عمرو....... مجھول راوی ہے
پھر اس روایت میں ارسال ہے.... مرسل روایت قابل حجت نہیں
تیسری بات..... یہ روایت منکر ہے.... ایک تو ضعیف پھر ثقہ روایت کی مخالفت میں ہے لہٰذا اس کا اعتبار قطعی نہیں ہو سکتا.... اور وہ ثقہ روایت جس کے خلاف یہ روایت ہے اس کا مضمون درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّىُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِىِّ عَنْ أَبِى مَعْبَدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ « إِنَّكَ تَأْتِى قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّى رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِى كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِى أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ فِى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ».
یہ وہ روایت ہے جس کا مضمون گواہی دیتا ہے کہ نبی کریمﷺ اور سیدنا معاذؓ کے ما بین وہ بات ہی نہیں ہوئی جس کو تقلید کے لیے دلیل بنانے کی الٹی سیدھی کوشش جاری ہے
[DOUBLEPOST=1358047969][/DOUBLEPOST]
"
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں
اطاعت کے حوالے سے احادیث میں ایک قاعد ہ بیان ہوا ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے: لا اطاعة فی معصیت اللہ(جس کام میں ) اللہ کی معصیت ہوتی ہو اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں (مسلم) اور انما الاطاعة فی المعروف یعنی اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔(بخاری )
اب یہ بات کیسے معلوم ہو گی کہ علماءو فقہاءکی بات کتاب و سنت کے موافق ہے یا خلاف؟ ظاہر ہے کہ یہ تبھی پتہ چل سکتا ہے جب انسان کو علماءو فقہاءکے اقوال کی دلیل کتاب و سنت سے معلوم ہو گی کیونکہ اگر اسے کتاب و سنت سے دلیل معلوم نہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اُن کی وہ باتیں بھی مان لے جو کتاب و سنت کے خلاف ہیں، جبکہ تقلید کہتے ہیں بغیر دلیل بات ماننا ، یعنی اس آیت سے تو تقلید کا رد ثابت ہوتا ہے۔
اولی الامر میں تو قیامت تک آنے والے تمام ا مراء،علماء، فقہاءاور مجتھدین شامل ہیں ، جبکہ مقلدین کا تو دعویٰ ہے کہ انسان پر صرف چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید لازم ہے، تو اس آیت اور پورے قرآن میں ائمہ اربعہ کی تقلید کا ذکر کہاں موجود ہے؟
تیسرا جواب: اس آیت کے آخری حصے میں واضح ذکر موجود ہے کہ جب تم کسی بات میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول علیہ الصلاة والسلام کی طرف لوٹاو۔ یعنی اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے نہ کے کسی اُمتی کی تقلید کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
سلف صالحین میں سے کسی نے اس آیت سے آئمہ اربعہ کی تقلید کا وجوب ثابت نہیں کیا۔[DOUBLEPOST=1358048208][/DOUBLEPOST]
پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے. [١٦:٤٣، ٢١:٧، ١٩:٤٣]
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے
اگر یہی چیز تقلید ہے تو آپکو ماننا پڑیگا کہ آج آپ اپنے ہر اس عالم کے مقلد ہیں جن سے آپ مسئلہ دریافت کرتے ہیں
اگر کوئی عالم قرآن و حدیث کی بات بتاۓ تو اسے تسلیم کرنا اسکی تقلید نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی اتباع ہے ، تقلید تو تب ثابت ہوگی جب وہ عالم اپنی راۓ سے فتویٰ دے اور لوگ اسکی بات آنکھ بند کر کے تسلیم کر لیں
اس آیت سے تو جتنے (اھل الذکر) اہل علم گزر چکے اور جتنے قیامت تک آئیں گے سب مرآد ہیں لیکن مقلدین کا تو دعوی ہے کہ مسلمانوں پر ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ فیصلہ ہم عقلمند اور تعصب نے رکھنے والے مقلدین پر چھوڑتے ہیں کہ آیا اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں!!
اس آیت میں زندہ اہل علم سے پوچھنے کا زکر ہے یا فوت شدہ اہل علم سے؟ ظاہر ہے جسے کسی مسئلے کا علم نہیں وہ کسی زندہ عالم سے ہی جا کر مسئلہ پوچھے گا لیکن حیرت ہے مقلدین کی عقل پر کہ یہ لوگ اس آیت سے فوت شدہ اہل علم (آئمہ اربعہ) کی تقلید کا واجب ہونا ثابت کرتے ہیں

کتب فقہ کے مطابق غیر نبی کی بات پر بنا دلیل عمل کرنے کا نام تقلید ہے، جبکہ اس آیت میں کہیں بھی بنا دلیل مسئلہ پوچھنے (تقلید) کا حکم موجود نہیں
عرف عام میں بھی اہل علم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں کہلاتا، آج مقلدین اپنے اپنے علماء سے مسائل پوچھ کر ان پر عمل کرتے ہیں تو کیا خیال ہے وہ اپنے علماء کے مقلد کہلائیں گے یا آئمہ اربعہ کے؟
 
  • Like
Reactions: *Muslim*
Top