تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
چراغ بھائی سب سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اختلاف اپنی جگہ لیکن اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو جہنمی کہنا اور قرآن اورحدیث کا دشمن کہنا کون سی تحقیق سے ثابت ہے.......
جب مسلمانوں کے سب سے بڑے مسلک کو قران اور حدیث کا دشمن اور جہنمی کہا جائے گا تو اس کے جواب ملنے پہ کسی کو کئی اعتراض نہیں ہونا چائیے.
یا تو اس فورم کے محققین واضح بتا دیں کہ احناف مقلدین کو ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے قادیانی یا شیعہ یا منکر حدیث ہیں تو پھر بات واضح ہو جائے.
آپ نے کچھ علماء کے حوالے دئیے تو بھائی ان میں سےا کثر تو خود مقلد ہیں. اگر تقلید اتنی ہی ناجائز اور حرام ہے تو شاہ ولی اللہ خود حنفی کیوں ہیں. علامہ شامی رحمہ اللہ خود حنفی کیوں ہیں. شیخ جیلانی رحمہ اللہ حنبلی کیوں ہیں، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ حنبلی کیوں ہیں...
چند علماء نے امام بخاری رحمہ اللہ کو بھی شافعی مقلد کہا ہے تو کیا یہ اکابرین بھی غلط ہو گئے.
یہاں اس فورم پہ کئی بار یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس فورم پہ کوئی شافعی، مالکی یا حنبلی نہیں ہے اور جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا تقلید صرف اس فورم کے ممبران پہ حرام ہے کیا.......... جب بات تقلید کی ہے تو پھر اس میں سب آئیں گے بھلے وہ شاہ ولی اللہ حنفی رحمہ اللہ ہوں، یا عبدالقادر جیلانی حنبلی رحمہ اللہ یا امام بخاری شافعی رحمہ اللہ لیکن گمراہ صرف احناف کو کہا جاتا ہے.
اگر مقلد ہونے سے مراد پٹہ ڈالنا ہے تو کہہ دیجئیے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیوںکہ وہ بھی مقلد تھے،
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیونکہ وہ بھی مقلد تھے. خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی پٹہ ڈالا کیونکہ وہ بھی مقلد تھے.
اور ایسے مقلد اکابرین آپ کو ہزاروں مل جائیں گے.
چند اکابرین کے حوالے میں بھی پیش کر رہا ہوں تقلید پہ.
================
علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی.
عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ.
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں...
کہ"تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(سورہ الاعراف:٣). اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں"(٢:١٧٠), اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام_حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر..."(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام_شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.
٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے. اللّہ تعالیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)
حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگۓ، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.
مومن (اسلام کا علم رکھتے ماننے والے) باپ دادا کی اتباع:
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے...(٥٢:٢١)
[الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٣،علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]
علامہ خطیب بغدادی (شافعی) رح غیر مجتہد (عامی) پر تقلید کا وجوب بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
بعض معتزلہ سے (یہ نظریہ) منقول ہے کہ ان کے نزدیک عامی (عوام) کے لئے بھی عالم کے قول پر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اسے حکم کی علت (وجہ و سبب) کا علم نہ ہوجاۓ،........اور یہ مسلک بلکل غلط ہے، اس لئے کہ عامی کے پاس حکم کی علت معلوم کرنے کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں ہے کہ وہ سالہا سال فقہ کی تعلیم حاصل کرے، طویل مدت تک فقہاء کی صحبت میں رہے، قیاس کے طریقوں کی پوری تحقیق کرے اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ کونسا قیاس صحیح اور کونسا فاسد ہوتا ہے؟ اور کس دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم رکھنا چاہیے؟ اور تمام لوگوں کو اس محنت کا مکلف کرنا "ما لایطاق" ہے یعنی جس کی ان میں قدرت نہیں اور اس (تقلید_مجتہد) کے سوا کو راستہ نہیں. [الفقیہ والمتفقه للخطیب : ٢/٦٩
================
امام شاطبی رحمہ الله اپنی کتاب " الموافقات " میں فرماتے ہیں کہ
فتاوى المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين ، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء ، إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئا ، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ، ولا يجوز ذلك لهم ألبتة ، وقد قال تعالى : ( فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) ، والمقلد غير عالم ، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر ، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق ، فهم إذًا القائمون له مقام الشارع ، وأقوالهم قائمة مقام الشارع "الموافقات" (4/292 انتهى
يعنى مجتھدين كے فتاوى جات عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا ان پڑھ لوگوں كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون
اگر تمہيں علم نہيں تو تم اہل علم سے دريافت كر ليا كرو : اور مقلد چونکہ عالم نہیں ہے ، اس ليے اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقا اہل علم ہى احكام دين ميں مرجع ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائم مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائم مقام ہيں
================
علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله بہت جلیل القدرامام ہیں
ان کا ایک فیصلہ اورفتوی ملاحظہ کریں ، فرماتے ہیں کہ
" وأمـا التـقـليـد في الفـُروع فهُـو جـائـز إجـمـاعًــا "
یعنی فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید بالاجماع جائز ہے ۰
یہ نہیں فرمایا کہ میرے نزدیک یا فلاں شیخ وامام کے نزدیک تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پرإجـمـاع نقل کر رہے ہیں ، اوریہ اجماع بهی چهٹی صدی میں نقل کر رہے ہیں ، اور مزید فرماتے ہیں کہ
" فلهذا جـاز التقليد فيـها، بل وجب علـى العـامـي ذلك "
لہذا فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید نہ صرف یہ کہ بالاجماع جائز ہے ،
بلکہ عـَامـي شخص پر تقلید واجب ہے ۰ [ انظر الروضة ص 206
================
اسى طرح شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ
" وتقـليـد العـاجـز عن الاستدلال للعـالم يجـوز عند الجمهور "
اور استدلال (واجتہاد) سے عاجز شخص کے لیئے جمہور علماء کے نزدیک عالم کی تقـليـد جائز ہے ۰ { انظر مجموع فتاوى ابن تيمية جـ 19 ص 262
================
الشيخ حمد بن ناصر بن معمرالنجدي شیخ محمد بن عبد الوهاب کے شاگرد ہیں ، وه فرماتے ہیں کہ
من كان من العوام الذين لا معرفة لهم بالفقه والحديث، ولا ينظرون في كلام العلماء، فهؤلاء لهم التقليد بغير خلاف، بل حكى غير واحد إجماع العلماء على ذلك اهـ
وه عام لوگ جن کو فقہ وحدیث کی معرفت حاصل نہیں ہے ، اور علماء کے کلام میں نظر ( واستدلال وتطبیق وغیره ) کی صلاحیت نہیں رکهتے ، توان لوگوں کے لیئے بلا اختلاف تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا ہے ۰
{ انظر مجموعة الرسائل والمسائل النجدية ، رسالة الاجتهاد والتقليد جـ2 ص 7 و ص 21 و ص 6 }
شیخ محمد بن عبد الوهاب نجدی کے بیٹے شیخ حسين، وشیخ عبد الله فرماتے ہیں کہ ، جب آدمی کو حدیث اورکلام علماء اوراقوال کے ترجیح کی معرفت حاصل نہ ہو تو اس کا وظیفہ اور ذمہ داری أهلُ العلم کی تقلید ہے ۰
إذا كان الرجل ليس له معرفة بالحديث، وكلام العلماء، وترجيح الأقوال، فإنما وظيفته : تقليد أهل العلم، قال الله تعالى{ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} سورة النحل: 43." الدرر السنية 4/ 14 ، 15
================
نواب صدیق حسن خان کہتے ہیں کہ
عام آدمی پہ مجتہد کی تقلید اور اس کے فتوی کو لینا واجب ہے“ (لقطة العجلان ، صفحہ 306
================
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سيدنا امام احمد بن حنبل كے مقلد تھے جيسا كه آپ كي كتاب مستطاب غنيۃ الطالبين كي درج ذيل عبارات سے ثابت هوتا هے:
هو مذهبُ امامِنا حمدَ بنِ محمّد بنِ حنبل رحمه اللّٰه تعاليٰ ﴿45 2﴾
اور يهي همارے امام احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مذهب هے۔
عند امامنا حمد رحمه الله تعاليٰ ﴿45 2﴾
يه همارے امام احمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مسلك هے۔
وَقَد نَصَّ الا مامُ حمدُ رحمه اللّٰه۔ ﴿43 1﴾
امام احمد رحمه الله تعاليٰ نے يه صراحت فرمائي هے۔
الا مام حمدَ بنَ حَنبل قال ﴿47 1﴾
اس ليے كه امام احمد نے فرمايا ۔
لا نّه رُوي نّ ال مام حمدَ بنَ حنبل قال
اس ليے كه امام احمد بن حنبل سے يه روايت هے كه آپ نے فرمايا۔
اس طرح كي عبارات غنيۃ الطالبين ميں بے شمار مقامات پر هيں جن سے عياں هوتا هے كه آپ سيدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ الله عليه كے مقلد تھے، كيوں كه اپنے بيان كرده مسائل كو ان كي طرف منسوب كرنا، ان كے مذهب كو نقل كركے اسے بر قرار ركھنا، اسے اختيار كرنا اور ان سے استناد فرمانا شان تقليد هے۔ مقلد كا كام هے نقل مذهب، اور اس كي دليل هے قول امام، اس كے مظاهر غنيۃ الطالبين ميں كھلي آنكھوں سے جا بجا مشاهده كيے جا سكتے هيں، يهاں تك كه آپ نے ايك مقام پر امام ممدوح عليه الرحمه كے مذهب پر هي وصال پانے كي دعا فرمائي هے۔ الفاظ يه هيں:
قال الامام بوعبدِ اللّٰه حمدُ بنُ محمّدِ بنِ حنبل الشّيباني رحمه اللّٰه و مَاتَنَا علي مذهبه صلًا و فرعًا وحَشَرَنا في زُم رَتِه يه
قول امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيباني كا هے الله عز و جل ان پر رحم فرمائے اور هميں ان كے مذهب كے اصول و فروع پر وفات دے، اور قيامت كے دن هميں ان كے زمرے ميں اٹھائے۔﴿105 2غنيۃ﴾
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ [ذیل الطبقات ۱/۲۹۸، شذرات الذہب ۴/۱۰۰]۔
================
حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ
واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ،
الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، }
اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ
مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ،
وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 }
================
امام غزالی(حنبلی) رح فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع_صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل_ضروریات_دین ثابت ہے"[المستصفى:٢/٣٨٥]
================
امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں
ومن زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا ، فهو قول فاسق عند اللَّه ورسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف.
وهذه المذاهب والأقاويل التي وصفت مذاهب أهل السنة والجماعة الآثار ، وأصحاب الروايات ، وحملة العلم الذين أدركناهم وأخذنا عنهم الحديث ، وتعلمنا منهم السنن ، وكانوا أئمة معروفين ثقات أصحاب صدق ، يقتدى بهم ويؤخذ عنهم ، ولم يكونوا أصحاب بدعة ، ولا خلاف ولا تخليط ، وهو قول أئمتهم وعلمائهم الذين كانوا قبلهم.
جو شخص یہ زعم (گمان) کرے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ، تو یہ قول الله و رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ایک فاسق (نافرمان) کا قول ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادیث_صحابہ و تابعین) کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہے، اور اپنی راۓ سے تفرد، کلام ، بدعت اور مخالفت کرنا
چاہتا ہے.
یہ اقوال و مذاھب جو میں (مصنف_کتاب امام ابن ابی یعلی رح) نے ماسبق میں ذکر کیے ہیں، خوبی ہے مذھب_اہل_سنّت والجماعت اور آثار، اور اصحاب الروایات کی. جور ان ارباب_علم کے جن کو ہم نے پایا، اور جن سے ہم نے علم_حدیث حاصل کیا، اور جن سے سنن کی تعلیم حاصل کی، وہ معروف ائمہ (دین) تھے، لائق_اعتماد، سچے لوگ تھے، جن کی اقتدا (تقلید و پیروی) کی جاتی اور ان سے (دین) لیا جاتا تھا، اور وہ بدعت والے نہ تھے، اور نہ مخالفت اور گڑبڑ پیدا کرنے والے تھے. اور یہی قول ان سے پہلے ائمہ دین کا ہے، اس لئے تم بھی اس کو مضبوطی سے پکڑلو. الله تم پر رحم کرے اور تمہیں بھی وہی علم دے جو علم انھیں دیا اور الله کی توفیق سے.
{طبقات الحنابلہ, امام ابن ابی یعلی رح, جلد 1 صفحہ 65،66
================