تزکیہ کے ذرائع:
اوپر ذکر اآچکا کہ تزکیہ کی دو شرائط ہیں،پہلی شرط یہ کہ اپنی اصلاح کا احساس ہو اور دوسری شرط ذریعے کا حصول ہے جس سے تزکیہ ہو سکے۔یاد رکھیں تزکیہ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلام
،نبی اکرم صلیّ اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے اور پاکیزہ لوگوں کے پاکیزہ کام اور باتیں ہیں،پاکیزہ
صحبت بھی اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس سے بھی انسان کا تزکیہ اور اصلاح ہوتی ہے۔ان
ذرائع سے انسان کی برائیاں دور ہوجاتی ہیں اور اچھائیاں پروان چڑھتی ہیں،پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو کسی شے میں حسن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے عیب دور ہوجائیں اور خوبیاں
نکھر جائیں۔ اگر کسی شے میں عیب موجود ہوں ،گندگی ہو اور دوسری طرف کوئی خوبی بھی موجود ہو
تو ہم اس شے کو خوبصورت نہیں کہتے۔مثال کے طور پر کسی انسان سے بو آرہی ہے،جسم پر مٹی کی
تہہ جمی ہوئی ہو ،بال بکھرے ہوں،ناخنوں میں میل ہو،دانت پیلے ہوں ،لباس میلا ہو،اور وہ
بہت خوبصورت لباس پہن لے،بہت قیمتی خوشبو لگا لے،انتہائی فیشن ایبل جوتے پہن لے تو ہم اس کو
خوبصورت انسان نہیں کہیں گے،اسی طرح اگر گھر گندہ ہو بو آرہی ہو،کیڑے مکوڑے پھر رہے ہوں
دیواروں پر جالے لگے ہوں لیکن مہنگی مہنگی آرائشی چیزیں رکھی ہوں اور ان پر بھی ڈھیر مٹی پڑی ہو
تو ہم ایسے گھر کو خوبصورت نہیں کہتے،یہ زینت تو ہے مگر خوبصورتی نہیں ہے۔اس کے برعکس آپ کسی
کے گھر جائیں جو بلکل سادہ ہو،قیمتی اشیاء سے آرائش نہ کی گئی ہو لیکن وہاں اچھی طرح صفائی ہوئی ہو،
سجاوٹ کی چیزیں سلیقے سے رکھی ہوں ،تو ہم کہیں گے کہ یہ گھر خوبصورت ہے۔تو خوبصورتی کے لئے
برائیوں کا اور گندگی کا دور ہونا اور ساتھ ساتھ خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔اس دوہرے عمل کا نام "تزکیہ"
ہے۔اس کے لئے اصطلاح مستعمل ہے:تخلیِ عن الرزائل وحلی بلفضائل"۔برائیاں دور کی جائیں اور اچھائیوں
کو اختیار کیا جائے اور ان کو پروان چڑھایا جائے،ان کی حفاظت کی جائے تو انسان کے تزکئی کا عمل پورا ہوتا
ہے۔اور اس کے لئے اللہ کی مددورحمت بہرحال ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
" وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "
" اے مسلمانوں اگر اللہ کا فضل اوراس کی رحمت تم پر نہ ہوتی ،تو تم میں سے کوئی ایک بھی،کبھی بھی پاک نہ
ہوسکتا۔لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے"۔
معلوم یہ ہوا کہ اللہ کے فضل و رحمت اور اس کے کلام کے بغیر کوئی بھی پاکیزگی اور تزکیہ حاصل نہیں کرسکتا۔
اوپر ذکر اآچکا کہ تزکیہ کی دو شرائط ہیں،پہلی شرط یہ کہ اپنی اصلاح کا احساس ہو اور دوسری شرط ذریعے کا حصول ہے جس سے تزکیہ ہو سکے۔یاد رکھیں تزکیہ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلام
،نبی اکرم صلیّ اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے اور پاکیزہ لوگوں کے پاکیزہ کام اور باتیں ہیں،پاکیزہ
صحبت بھی اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس سے بھی انسان کا تزکیہ اور اصلاح ہوتی ہے۔ان
ذرائع سے انسان کی برائیاں دور ہوجاتی ہیں اور اچھائیاں پروان چڑھتی ہیں،پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو کسی شے میں حسن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے عیب دور ہوجائیں اور خوبیاں
نکھر جائیں۔ اگر کسی شے میں عیب موجود ہوں ،گندگی ہو اور دوسری طرف کوئی خوبی بھی موجود ہو
تو ہم اس شے کو خوبصورت نہیں کہتے۔مثال کے طور پر کسی انسان سے بو آرہی ہے،جسم پر مٹی کی
تہہ جمی ہوئی ہو ،بال بکھرے ہوں،ناخنوں میں میل ہو،دانت پیلے ہوں ،لباس میلا ہو،اور وہ
بہت خوبصورت لباس پہن لے،بہت قیمتی خوشبو لگا لے،انتہائی فیشن ایبل جوتے پہن لے تو ہم اس کو
خوبصورت انسان نہیں کہیں گے،اسی طرح اگر گھر گندہ ہو بو آرہی ہو،کیڑے مکوڑے پھر رہے ہوں
دیواروں پر جالے لگے ہوں لیکن مہنگی مہنگی آرائشی چیزیں رکھی ہوں اور ان پر بھی ڈھیر مٹی پڑی ہو
تو ہم ایسے گھر کو خوبصورت نہیں کہتے،یہ زینت تو ہے مگر خوبصورتی نہیں ہے۔اس کے برعکس آپ کسی
کے گھر جائیں جو بلکل سادہ ہو،قیمتی اشیاء سے آرائش نہ کی گئی ہو لیکن وہاں اچھی طرح صفائی ہوئی ہو،
سجاوٹ کی چیزیں سلیقے سے رکھی ہوں ،تو ہم کہیں گے کہ یہ گھر خوبصورت ہے۔تو خوبصورتی کے لئے
برائیوں کا اور گندگی کا دور ہونا اور ساتھ ساتھ خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔اس دوہرے عمل کا نام "تزکیہ"
ہے۔اس کے لئے اصطلاح مستعمل ہے:تخلیِ عن الرزائل وحلی بلفضائل"۔برائیاں دور کی جائیں اور اچھائیوں
کو اختیار کیا جائے اور ان کو پروان چڑھایا جائے،ان کی حفاظت کی جائے تو انسان کے تزکئی کا عمل پورا ہوتا
ہے۔اور اس کے لئے اللہ کی مددورحمت بہرحال ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
" وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "
" اے مسلمانوں اگر اللہ کا فضل اوراس کی رحمت تم پر نہ ہوتی ،تو تم میں سے کوئی ایک بھی،کبھی بھی پاک نہ
ہوسکتا۔لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے"۔
معلوم یہ ہوا کہ اللہ کے فضل و رحمت اور اس کے کلام کے بغیر کوئی بھی پاکیزگی اور تزکیہ حاصل نہیں کرسکتا۔