JazakAllah awesome sharing..!
Bohat hi Detail main aak Hasaas masalay ko biyan kia hay with Solid Examples..! Humain is Knowledge ko aam Life main bhi doseron tak pohnchana chahiye kyun k Log is matter main Ghalt Fehmi aur Gumrahi ka shikar hain..! aur 3 Talaaq ko 1 mannay ki Bohat Valid reasOn Is Topic k end pe batae gie hay Jo k Kise k liye bhi samjhna mushkil nahi..!
aur Main yahan aak Q kerna Chahon ge...! Jo Log Divorce Papers sign ker k Talaq detay hain us main bhi yahe rule Lago hota hay..? Jahan tak mujhay pata hay Divorce papers tu aak dafa hi bantay hain aur aak dafa hi sign hOtay hain..!
بارك الله فيكم
جزاک اللہ بہت عمدہ سوال ہے
اصل میں ایک بات کو مد نظر رکھیں جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ تین طلاق الگ الگ دینی ہیں اور وہ بھی تین طہر میں ہونگی تو اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اب طلاق دینی کیسے ہے ؟ بول کر یا تحریر کرکے
جب بول کر دیں گے تو پہر تین طلاق تین طہر میں دینی ہونگی یا پھر ایک طلاق ایک طہر میں دے کر دوسرے دو طہر میں بیوی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ کرنا بھی باقی دو طلاقوں کے وقوع کا سبب بن جاتا ہے
چاہے تو آپ تین طلاق تین طہر میں دیں یا پھر چاہیں تو ایک طلاق ایک طہر میں دے دیں اور باقی دو طہر بیوی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں ازخود باقی دو طلاق بھی واقع ہوجائیں گی۔
کیونکہ جب آپ نے ایک طلاق دی تو آپ کےلیے ٹائم سٹارٹ ہوگیا کہ اب آپ کے پاس باقی دو طہر ہیں اگر چاہیں تو ان دو طہر میں دوبارہ میل ملاپ کرلیں۔ یانہ کریں
یہ تو تھی بول کر طلاق کے بارے میں کچھ باتیں
باقی رہی لکھ کر طلاق دینے کی بات تو اس میں بھی انہی باتوں کو سامنے رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر طلاق کے پیپر ایک ہی بار لکھے جاتے ہیں تو خاوند کو چاہیے کہ وہ پیپر دینے کے بعد بیوی سے کوئی رابطہ نہ رکھے باقی دو طہر تک تو طلاق لاگو ہوجائے گی
لیکن اگر چاہے تو ہر طہر میں تحریر پیش بھی کرسکتا ہے یا پہر اس کی دوسری صورت ہر ایک طہر میں بیوی کو ایک تحریر پیش کردی جائے جو کہ پہلی تحریر کے وقت فائنل کی گئی ہوں
یعنی طلاق کی پہلی تحریر لکھتے وقت باقی دو طلاقوں کی بھی تحریر لکھ لے اور ہر طہر میں ایک ایک پیش کرتا رہے اور یہ کام اس کی جگہ پر کوئی دوسرا آدمی بھی سرانجام دے سکتا ہے۔
عدالت کے ذریعے طلاق
دیکھیں کسی بھی ملک کا کوئی بھی قانون شریعت کو منسوخ نہیں کرسکتا ۔ جو بھی آدمی یاعورت عدالت کے ذریعے طلاق لے لیتے ہیں اگر تو مرد اس پرراضی ہے تو طلاق ہوجائے گی لیکن اگر مرد راضی نہیں بلکہ عدالت زبردستی یا پھر مرد کی ناراضگی میں بھی طلاق کےوقوع کا عدالتی نوٹس جاری کیا جانا طلاق کے وقوع پر دلالت نہیں کرتا
طلاق میں یہ اہم بات ہے کہ مرد کی طرف سے ہو اور مرد اس میں راضی بھی ہو
مرد اگر راضی ہے تو چاہے وہ عدالت کے ذریعے طلاق دلوائے یا کسی بھی طرح اس میں مرد کی مرضی
لیکن اگر طلاق عورت لینا چاہتی ہے اور مرد اس میں راضی نہیں
تویہ طلاق نہیں ہوگی کیونکہ طلاق دینا مرد کا حق ہے عورت کا نہیں
باقی ایک بات اس میں اہم ہے وہ یہ کہ
اگر مرد میں ایسی خرابیاں ہیں جس پر عورت کا طلاق لینا حق بن جاتا ہو تو پھر اہل خیر طلاق دلوانے پر مرد کو راضی کریں گے۔
مزید تفصیل آپ کو کتب کے مطالعہ سے مل جائے گی
ان شاءاللہ
اگر مرد رجوع کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ عدالت کے بجائے ڈائریکٹ عورت سے ہی رابطہ کرلے
ہاں قانونی کاروائی کےلیے اگر عدالت کابیچ لانا ضروری ہے تو عدالت سے کی تھرو بھی رجوع کیا جاسکتا ہے
واللہ اعلم