قلندر بھائی کی پوسٹ نمبر57 کا جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔محترم بھائی آپ نے کہا کہ
’’ یہاں چئیر فل بھائی نے از خود ایک ٹھریڈ بنایا تھا جس میں انہوں نے اپنی بات رکھی۔ باقاعدہ دو فریقین کی باہمی رضامندی سے یہاں بحث کا آغاز نہیں ہوا تھا۔‘‘
محترم اس میں تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ اگر اس مسئلہ پر چیئر فل بھائی سے بات کرنا بھی چاہتے تھے تو پہلے مزید وضاحت کےلیے دعوے کامطالبہ کرتے اور پھر اپنا دعویٰ پیش کرتے۔دلائل کہاں سے دیئے جائیں گے کا تعین ہوتا۔پھر بات شروع کرتے۔تب جاکر بات کسی نتیجہ تک پہنچتی۔اگر یوں ہی ٹائم ضائع کرنے اورادھر ادھر کی باتیں کرنے کا پروگرام ہے تو عزیز پھر ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ کسی کی فضولیات کاجواب دیتے پھریں۔پھر آپ لگے رہیں۔ہمیں رخصت۔
لیکن ایک طرف آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ پر بحث ومباحثہ بھی کروں اور دوسری طرف آزاد بھی رہنا چاہتےہیں کہ جو من میں لکھتے جاؤ۔تاکہ بات صرف موضوع پر ہی نہ رہے بلکہ ادھر ادھر بھی پھیلےرہے۔تو یہ انداز قطعاً مناسب نہیں۔
2۔آپ کافرمانا کہ
’’ لہذا میں نے ان کی پوسٹ کے جواب میں ابھی ایک حصہ جاری کیا ہے اور دوسرا حصہ زیر ترتیب ہے جس کو جاری کرنے کا حق رکھتا ہوں۔‘‘
2۔محترم ہم نے آپ کو کب روکا ہے کہ آپ اپنے دلائل پیش نہیں کرنا۔یوں دلائل پیش کرنا ہی بے کار ہےجب تک فریقین کو ایک دوسرے کےدعووں اور ماخذ شریعت کاپتہ نہیں چلے گا۔؟آپ اپنےدلائل تیار کرکیں رکھیں اوروقت آنے پر ہی پیش کرنا۔لیکن ابھی پیش کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔جب تک آپ اپنادعویٰ اور دلائل کی کسوٹی کے ساتھ ماخذد شریعت کاتعین نہیں کردیتے تب تک بات کرنا ہی فضول ہے۔کیونکہ پھر بات کسی کنارے لگے گی ہی نہیں۔
3۔آپ نے کہا کہ
’’ آپ کا دعویٰ ابھی بھی واضح اورمکمل نہیں ہے۔‘‘
محترم بھائی میرا دعویٰ پھر پڑھو اور بار بار پڑھو۔ایک ایک الفاظ پر غور کرو۔میں نے لکھا کہ کہ
میرا دعویٰ:
مسئلہ طلاق میں میرا دعویٰ یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین نہیں بلکہ ایک ہی ہوتی ہے۔اس بات کو ماخذ شریعت سے ثابت کیا جائے گا۔اور ماخذ شریعت میرے نزدیک چار ہیں۔قرآن، حدیث ، اجماع اور قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس۔
مزید وضاحت کردیتا ہوں کہ دعویٰ میں یہ بات کہ ایک مجلس میں تین طلاق تین نہیں بلکہ ایک ہوتی ہے۔اور آپ کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔
میں ماخذ شریعت سے بادلائل صحیحہ یہ ثابت کرونگا کہ ایک مجلس میں تین طلاق تین نہیں بلکہ ایک ہوتی ہے اور آپ میرے دلائل کا رد کرتے ہوئے اپنے دعویٰ پر یہ دلائل پیش کریں گے کہ ایک مجلس میں تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔
اس میں صرف اور صرف یہ بات ہے کہ ایک مجلس ہو ، اور اس میں دی گئی تین طلاق کتنی شمار ہونگی۔؟ اس پر ہماری بحث ہوگی۔اس کے علاوہ فی الحال اور کسی بات کو بیچ میں نہیں لایا جائے گا۔صرف اس بات کاذکر کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہوتی ہے یا تین۔بس اور بس۔باقی رہیں اس کےعلاوہ کی باتیں کہ وہ طلاق عورت کو کس حالت میں دی گئی ہے۔کیسے دی گئی ہے ۔فی الحال اس پر ہم بات نہیں کریں گے۔پہلے اس بات کو سمجھیں گے کہ ایک آدمی ایک مجلس میں اپنی بیوی کو کہہ دیتا ہے طلاق طلاق طلاق یا کہہ دیتا ہے کہ تمہیں تین طلاق۔تو یہ ایک طلاق کے حکم میں ہونگی یا تین طلاق کے حکم میں۔
اور میں نے اپنا دعویٰ بھی اسی پر لکھا ہے کہ میرادعویٰ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین نہیں بلکہ ایک ہی ہوتی ہے۔
آپ کے بقول یہ دعویٰ کیسےواضح اور مکمل نہیں ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔آپ اس کانقص واضح کریں ۔پھر دیکھاجائے گا۔
4۔پھر آپ نےکہا
’’ آج آخر آپ نے شریعت کے چار ماخذ کو تسلیم کرہی لیا یہ تو اہل سنت والجماعت کے چار ماخذ تھے آپ تو صرف قرآن اور احادیث کو بطور۔ دلیل حجت مانتے تھے۔ جناب کب سے آپ کے ماخذ شریعت چار ہوگئے؟ ‘‘
پہلی بات آپ ابھی سےہی موضوع از خارج باتیں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔؟ میں جانتا ہوں یہ آپ لوگوں کاوطیرہ ہے کہ موضوع پر تو بات کرتے ہیں نہیں ہیں۔بلکہ ادھر ادھر کی باتوں میں ٹائم گزارنے کی کوشش کرنےمیں مصروف رہتے ہیں۔ اس لیے آپ سےگزارش ہےکہ موضوع کےمطابق بات کریں اور ادھر ادھر کی باتوں سے کلی طور گریز کریں۔
ابھی آپ نے ایک بات کردی جس کا جواب دینامناسب سمجھتا ہوں۔تو لیں جناب آپ کی ان باتوں کا۔
آپ نےکہا کہ
’’ آخر آپ نے شریعت کےچار ماخذ کوتسلیم کر ہی لیا۔‘‘
1۔آپ کو یہ کیسےمعلوم ہوا کہ میں پہلے ماخذ شریعت میں قرآن وحدیث کا ہی نام لیتا تھا اجماع اور قیاس کا نہیں ؟
2۔آپ کو کیسےمعلوم ہوا کہ آج میں نے چار ماخذ مان لیے پہلے نہیں مانتاتھا ؟
محترم جناب ماخذ شریعت کس کے نزدیک کتنے اور کیاہیں۔یہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔آپ کےاسی واویلے کی وجہ سے محدث فورم پر کچھ عرصہ قبل ایک مضمون ترتیب دیاتھا جو کہ کچھ یوں تھا۔
جس میں آپ کے اسی ہی واویلا کو بے لگام کیا تھا۔اگر دوسرےفورم کالنک دینے پر انتظامیہ کو کوئی اعتراض ہو تو مجھے اطلاع کریں اس مضمون کو محترم کی اس بات کےجواب میں یہاں پیش کردونگا۔ان شاءاللہ۔ٹھنڈے دل ودماغ سے اس مضمون کامطالعہ کریں۔ان شاءاللہ اس کے بعد یہ نہیں کہو گے کہ آپ آخر آپ نےشریعت کے چار ماخذ کوتسلیم کرہی لیا۔
پھر آپ نے کہا کہ
’’ یہ تو اہل سنت والجماعت کے چار ماخذ تھے۔‘‘
یعنی آپ اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت میں شمار کررہے ہیں اورہمیں اس جماعت سےنکال رہے ہیں۔تعجب ہے آپ پر۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔حنفیوں، دیوبندیوں، بریلویوں وغیرہ کا اہل سنت والجماعت میں شمار ہوتا ہے یا نہیں۔؟ اگر آپ چاہیں تو اس پر بحث کرلیں۔ان شاءاللہ باللہ التوفیق میں ثابت کرونگا کہ آپ لوگوں کاشمار اہل سنت والجماعت میں نہیں ہوتا۔اہل سنت والجماعت میں صرف اور صرف ان لوگوں کا شمار ہوگا جن کاعقیدہ وعمل قرآن وحدیث کے عین مطابق ہوگا۔باقی چاہے اس کا تعلق جس جماعت کے ساتھ بھی ہو۔
باقی جتنامرضی کہتے پھریں کہ ہم ہی اہل سنت والجماعت ہیں ۔صرف کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اگر آسمان کو زمین اورزمین کو آسمان کانام دینے سے حقیقت بدل جائے گی ؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے نام پہ قابض ہونے سے آپ لوگوں کی بھی حقیقت نہیں بدل سکتی۔
پھر آپ نے کہا کہ
’’ آپ تو صرف قرآن اور احادیث کو بطور۔ دلیل حجت مانتے تھے۔‘‘
آپ سے گزارش ہےکہ دیئے گئے لنک کابغور مطالعہ کریں۔ان شاءاللہ سب اشکالات دور ہوجائیں گے۔مزید اگر کوئی بات ہوتو کوئی اورتھریڈ شروع کرکے لنک مجھے دے کر وہاں بات کرنا یہ تھریڈ صرف طلاق کے لیےخاص ہے۔ادھر ادھر کی باتوں پر ٹائم ضائع نہیں کیاجائےگا۔
آپ نے کہا کہ
’’ جناب کب سے آپ کے ماخذ شریعت چار ہوگئے؟ ‘‘
جس کاصاف مطلب ہےکہ ہم لوگ پہلےقرآن وحدیث کو مانتےتھے ۔بلکہ اس کا اقرار آپ نےخود بھی کیاہے۔ارے ہم توقرآن وحدیث کو تو مانتے تھے ۔آپ لوگ تو قرآن وحدیث کو بھی نہیں مانتے۔آپ لوگوں کےماخذ شریعت نہ قرآن ہے، نہ حدیث ہے ، نہ اجماع ہے اور ناقیاس۔بلکہ آپ کےلیے تو صرف اور صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے۔آپ چلےماخذ شریعت کی بات کرنے۔
آپ لوگوں کےلیے صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے قرآن وحدیث نہیں ۔تین حوالے یہاں پیش کررہاہوں باقی مزید تفصیل آپ کو اس مضامین میں ملے گی۔
1۔ قاضی زاہد الحسینی دیوبندی لکھتے ہیں کہ حالانکہ ہر مقلد کے لیئے آخری دلیل مجتھد کا قول ہے۔جیسا کہ مسلّم الثبوت میں ہے ،، اما المقلد فمستندھ قول المجتھد،، اب ایک شخص امام ابو حنیفہ کا مقلد ہونے کا مدعی ہو اور ساتھ وہ امام ابو حنیفہ کے قول کے ساتھ یا علیحدہ قرآن و سنت کا بطور دلیل مطالبہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور رہنما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا (مقدمہ کتاب ،،دفاع امام ابو حنیفہ از عبدالقیوم حقانی صفحہ ۲۶)
2۔ احمد یار نعیمی بریلوی لکھتے ھیں کہ اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں ہماری اصل دلیل تو ابو حنیفہ امام اعظم کا فرمان ہے ۔ ( جآء الحق ۲/۹۱)
3۔ محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
’’ والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔‘‘کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
اس لیے آپ کا یہ دعویٰ کہ ہم قرآن وحدیث کو مانتےہیں غلط ہے۔اور پھر اگر میں چاہوں تو ہر بات پر آپ سے قول امام کا ہی مطالبہ کرسکتاہوں۔اور آپ پہ یہ واجب ہوگا کہ آپ بھی قول امام ہی پیش کریں۔
گزارش ہے کہ آئندہ موضوع از خارج بات کرنے سے باکل پرہیز کریں۔اور اب میرےدعویٰ میں جو نقص ہیں اس کو واضح کرتےہوئے اپنادعویٰ پیش کریں تاکہ پھر ہم بات کا آغاز کریں۔پچھلی بیان شدہ باتوں کاتذکرہ بھی ان شاءاللہ تفصیل سے بیان ہوگا۔
والسلام