بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
حقیقت تقلید
از:عابد الرحمن بجنوری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔