ساتھ رہتا تھا مگر---- ساتھ نہیں تھا میرے
اس کی قربت نے بھی اکثر مجھے تنہا رکھا
رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
ساتھ رہتا تھا مگر---- ساتھ نہیں تھا میرے
اس کی قربت نے بھی اکثر مجھے تنہا رکھا
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
ہم نے تو ہر دکھ کو محبت کی عنایت سمجھا
ہم کوئی تم تھے جو اوروں سے شکایت کرتے
حُسن کا بپھرا ہُوا ہے اک سمندرChalo na sath chalty hain samunder k kinary tak
Kinary per he dekhen gy kinara koun krta hy
کوئی ٹھکرائے چاہت کو تو ہنس کر سہہ لیناہم سماعت کو ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں
تیری آواز میں کوئی تو پکارے ہم کو
تو ہے وہ قیمتی نقصان جو راس آیا ہے
اچھے لگتے ہیں ترے بعد خسارے ہم کو!
سورالناس کے ہالے میں کھڑی ہوں گم صمرات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
ہے یوں تو میرے رقیبوں میں اختلاف بہتکہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
ہم ہیں رسواِ کن دلی و لکھنؤ ، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبروحُسن کا بپھرا ہُوا ہے اک سمندر
اور کنارے پر مَیں تشنہ لب کھڑا ہوں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ھے میرے دل پرکوئی ٹھکرائے چاہت کو تو ہنس کر سہہ لینا
محبت کی طبیعت میں زبردستی نہیں ہوتی
ہے عجب طورِ حالتِ گریہ کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہےہزاروں موسموں کی حکمرانی ھے میرے دل پر
وصی میں جب بھی ہنستا ھوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ھیں
ہم دونوں نے باری باری اک اک عہد نبھانا تھاسورالناس کے ہالے میں کھڑی ہوں گم صم
میرے چاروں جانب شور مچاتے شر ہیں
ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيںہے یوں تو میرے رقیبوں میں اختلاف بہت
میرے خلاف مگر اتحاد کتنا ہے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیںہم دونوں نے باری باری اک اک عہد نبھانا تھا
باری باری بھول گئے ہیں اپنی اپنی باری کو
زین شکیل
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکنہے عجب طورِ حالتِ گریہ کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے
حال خوش لکھنو کا دلّی کا بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے
گماں نہ کر کہ مجھے جراَتِ سوال نہیںکس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
تم کسی اور کیلئیے ہو گی سمندر حسنChalo na sath chalty hain samunder k kinary tak
Kinary per he dekhen gy kinara koun krta hy
ہے گنبد خضرا کے سوا اور بھی جلوےتم کسی اور کیلئیے ہو گی سمندر حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے شمع، ہم سے سوزِ محبّت کے ضبط سیکھkahan masroof ho gaye ho tum
Dill dukhany b ab nhi aaty
پھر کسی کے ساتھ نہیں جُڑتےکی سے ک
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
حُسن کامِل ہے تِرا،اور بھی کامِل ہو جائےTumhary sath dekhi the wagarna zindagi hum ko
Na tab mehsos hoti the na ab mehsos hoti hy
گِنو نہ زَخم، نہ دِل سے اَذِیَّتیں پُوچھواے شمع، ہم سے سوزِ محبّت کے ضبط سیکھ
کمبخــت، ایک رات میں ســـاری پگھـــل گئی