یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا
وہ جو پیڑ جَڑ سے اکھڑ گیا اُسے موسموں کا ملال کیا
خوبزمیں کے اندر آرام گاہوں میں سونے والے مصوروں کو کیا خبر تھی
بغیر ان کے سبھی تصور، تمام منظر
ادھورے ہوں گے
دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی
دراز عمری عذاب ہو گی
ارے واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غُبارِ ہجراں کے سِلسلوں نے
وصال رُت کی تمام یادیں
تمہارے دِل سے دھکیل دی ہیں
مگر مری جاں
سمے مِلے تو یہ غورکرنا
تُمہاری آنکھوں کی سرحدوں پر
اُبھرنے والی ہر ایک نَس میں
یہ سُرخ ڈورے جو بُن رہا ہے
لہو نہیں ہے
وہ میں ہوں جاناں
کہ جِس لہو کوطواف کرکے
تمہارے دِل میں ہی لوٹنا ہے
خود کو اپنے بھی کسی کام نہیں آنے دیاایک بھی زخم کو آرام نہیں آنے دیاکمال،کمال ، کمال ، کماااااااااااال۔
اک نشانی بھی فراموش نہیں کی اُسکی
ایک بھی زخم کو آرام نہیں آنے دیا
اُس نے اک دن مُجھے ناکام کہا اور میں نے
خود کو اپنے بھی کِسی کام نہیں آنے دیا
مِرے کے نیچے زیر لگا دیا کریں۔ ورنہ شاعری کے اصول و قوانین سے ناواقف ہم جیسے معصوم لوگ پڑھیں گے ، مَرے چارہ گر۔۔ -ـ- ۔جیسے وہ کہتے پراں مر۔۔۔۔
مرے غم وہیں کے وہیں رہے جہاں تھے کبھی
تری خوش نظر نہیں کارگر مرے چارہ گر
Kavi
مِرے کے نیچے زیر لگا دیا کریں۔ ورنہ شاعری کے اصول و قوانین سے ناواقف ہم جیسے معصوم لوگ پڑھیں گے ، مَرے چارہ گر۔۔ -ـ- ۔جیسے وہ کہتے پراں مر۔۔۔۔