@lovelyalltime bhai kindly do not go out of topic . abhi nasir bhai ki thread pe admins ka wait hai ke woh kya kehte hain so aap abhi is terha ka kuch post na karen us ke lye aap different thread chose karen shukrya
salam
ok leo bhai
@lovelyalltime bhai kindly do not go out of topic . abhi nasir bhai ki thread pe admins ka wait hai ke woh kya kehte hain so aap abhi is terha ka kuch post na karen us ke lye aap different thread chose karen shukrya
Wa'alaikumussalaam NasirNoman bhaiہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ :ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟سنن نسائی کی ایک روایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولكمیں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران (حدیث "حسن" ہے)وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے حکم کو نہ ماننا ، توہین کہلائے گا؟کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس فعل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرتعثمان (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم نہیں کی ؟ایسی بہت سی مثالیں دورِ صحابہ میں مل جاتی ہیں۔ اور یہ تو صحابہ کا معاملہ تھا ۔۔۔ اب ذرا سوچ لیں کہ دوسرے ائمہ کرام یا بزرگانِ دین کس شمار و قطار میں ہیں؟ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔اسلام = قرآن + صحیح احادیثامام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیںمیری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔(آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایااے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح) حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)اگر کسی نیک و متقی شخص کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف آجائے تو ؟تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا حکم دیا ہے اور کسی کی قربانیاں اور عبادات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اس کی بات کو لے لیا جائے ۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا نسخہ لیکر آئے اور کہا اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا تو حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا گم کریں تجھ کو گم کرنیوالیاں!کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتا !تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ‘ میں اللہ کے رب ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و تر کتمونی لضللتم عن سوا ءالسبیل ولو کان موسی حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی ۔(مشکوة)”اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے اگر موسیٰ علیہ السلام تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو میری ہی پیر وی کرتے “۔اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بات کو لے لیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو یہ گمراہی ہے ۔عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ عیسائی تھے وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ جب اس آیت پر پہنچے ۔اتخذوااحبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ ۔( سورة التوبہ آیت 31)۔”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے“ ۔تو عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہم انکی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !تمہارے علماءاوردرویش جس چیزکو حرام کر دیتے حالانکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہوتا تو کیاتم اسے حرام نہیں جانتے تھے اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہوتا لیکن وہ حلال کر دیتے تو کیا تم اسے حلال نہیں جانتے تھے ؟میں (عدی) نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا یہی ان کی عبادت ہے ۔ (ترمذی)۔[DOUBLEPOST=1349673192][/DOUBLEPOST]
حضور صلی اللہ وسلم کا فرمان سیدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جوبات سنا کرتا اسے ،یاد کرلینے کے ارادے سے لکھ لیا کرتا تھا۔قریش کے بعض لوگوں نے مجھے اس عمل سے روکا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سےسنی ہوئی ہر بات نہ لکھا کرو جبکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں (بتقاضائے بشریت) آپ کبھی خوشی میں ہوتے ہیں اور کبھی ناراضی یا غصے میں ۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں میں نے لکھنا چھوڑ دیا اوررسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنی بابرکت انگلی سے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اكتب فواللذي نفسي بيده مايخرج منه الا حق‘‘ (سنن ابودادؤ)لکھو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ہے۔[DOUBLEPOST=1349673374][/DOUBLEPOST]
جب سے دین کو پڑھا ہے ، اس کے بعد دل کرتا ہے کہ عمل صرف اس پر کیا جائےجو آپ ﷺ سے ثابت ہےجس طرح آپ ﷺ اور صحابی رسول زندگی گزارتے تھے۔اسی طرح زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کروں۔اس کوشش میں مجھے کافی مسائل کا سامنا رہا اور اب بھی ہےمرتد، فتنہ، غیر مقلد اور نفرت آمیز لہجے میں ادا کیا گیا لفظ بابی(وہابی)۔یہ سب سن چکا ہوں۔۔مختصر بات کرتا ہوں کہ ہدائیت منجاب اللہ تعالی ہےاور اس کو ملتی ہے جو ہدائیت کا طلب گار ہےاور ہدائیت کے لئے تو ایک نقطہ ہی کافی ہےورنہ تو بے ہدائیتوں کے لئے پورا قرآن مجید ہی ناکافی ہےاللہ تعالی ہم سب کو ہدائیت دیںآمین
thats a point nasir bhaiإِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اللہ کی سب تعریفیں، وحدہ لاشریک، خالق کل شیئنیت پر عمل کا دارومدار ہے، دلیل کی اتباع تب ہے جب وہ شرعی دلیل ہو، خوف خدا ہو تو زبان بند ہو جائے، علم اگرخوش فہمی میں مبتلاء کرے توبصیرت جاتی رہے، عوام کے سامنے قرآن و حدیث کا نام لے کراپنے مقاصد کے لیے ان سے حوالے نقل کر دینا ان لوگوں کے لیئے یقینا باعث تسکیں ہو گا جن کا خوشہء چین علمی روب چمکانا اور اپنے مسلک کے پرچار کو دین کی خدمت سمجھنا ہے، خبر دار! اگر کوئی صاحب علم ہے تو اس سے اوپر علیم بھی ہے اسی لیے علم انسان کو ادب سکھاتا ہے اور بندہ جھک جاتا ہے عجز و اعتراف کی چادر پہننے والے تو کبھی دعوائے دانائی نہیں کرتے ان کے ہاں بھی قرآن و سنت ہی معیار قبول و تسلیم ہے مگر اکابرین فقھائے امت کے اقوال " کہ جن کے مآخذ عین قرآن و سنت ہیں" کو خلاف قرآن و سنت سمجھنا یا ان پر تنقید کرنا جہالت و کم علمی کی صرحی علامت ہے، تحقیق کا معیار علم پر ہے اور محض نقل روایت کو ثبوت کا نام دے دینا محقق ہونے کے مترادف نہیں. صحیح حسن ضیف وغیرہ سند کے نام ہیں ان اقسام کا ذکر کسی حدیث میں نہیں نہ قول صحابی میں مذکور پھریہ محدث کی ذاتی تحقیقات ہیں بخاری رحمۃ اللہ کے علم میں جو چند ضیف وہ مسلم رحمۃ اللہ کی تحقیق میں صحیح تو منکر تقلید سے یہ کیوں نہ ہوا کہ اپنی تحقیق لائیں اور محدث کی تقلید کو بھی چھوڑ دیں........ جاری ہے
sahi bole bhai agr sirf admins se baat karni hy to private b baat ho sakti thi lekin asal me aisa nahi hy ye loog bas bahes hi karna chahte hy wo bi meethi churi se islie admins ki aadh me sab ko lapet rahe hyThis thread is supposed to be for admins. I don't understand why the thread starter has to post here. Please make it private and discuss it with admins only.
No more post required by ur side . jo aap ne jari kya hai us ke lye dosri thread lagayen .. is thread pe out of topic tamam posts delete hongi. so jis maqsad ke lye thread hai usey pora honey den aap shukryaاللہ کی سب تعریفیں، وحدہ لاشریک، خالق کل شیئنیت پر عمل کا دارومدار ہے، دلیل کی اتباع تب ہے جب وہ شرعی دلیل ہو، خوف خدا ہو تو زبان بند ہو جائے، علم اگرخوش فہمی میں مبتلاء کرے توبصیرت جاتی رہے، عوام کے سامنے قرآن و حدیث کا نام لے کراپنے مقاصد کے لیے ان سے حوالے نقل کر دینا ان لوگوں کے لیئے یقینا باعث تسکیں ہو گا جن کا خوشہء چین علمی روب چمکانا اور اپنے مسلک کے پرچار کو دین کی خدمت سمجھنا ہے، خبر دار! اگر کوئی صاحب علم ہے تو اس سے اوپر علیم بھی ہے اسی لیے علم انسان کو ادب سکھاتا ہے اور بندہ جھک جاتا ہے عجز و اعتراف کی چادر پہننے والے تو کبھی دعوائے دانائی نہیں کرتے ان کے ہاں بھی قرآن و سنت ہی معیار قبول و تسلیم ہے مگر اکابرین فقھائے امت کے اقوال " کہ جن کے مآخذ عین قرآن و سنت ہیں" کو خلاف قرآن و سنت سمجھنا یا ان پر تنقید کرنا جہالت و کم علمی کی صرحی علامت ہے، تحقیق کا معیار علم پر ہے اور محض نقل روایت کو ثبوت کا نام دے دینا محقق ہونے کے مترادف نہیں. صحیح حسن ضیف وغیرہ سند کے نام ہیں ان اقسام کا ذکر کسی حدیث میں نہیں نہ قول صحابی میں مذکور پھریہ محدث کی ذاتی تحقیقات ہیں بخاری رحمۃ اللہ کے علم میں جو چند ضیف وہ مسلم رحمۃ اللہ کی تحقیق میں صحیح تو منکر تقلید سے یہ کیوں نہ ہوا کہ اپنی تحقیق لائیں اور محدث کی تقلید کو بھی چھوڑ دیں........ جاری ہے
Point notedNo more post required by ur side . jo aap ne jari kya hai us ke lye dosri thread lagayen .. is thread pe out of topic tamam posts delete hongi. so jis maqsad ke lye thread hai usey pora honey den aap shukrya