مولانا طارق جمیل من گھڑت بات کرنے کے شوقین ہیں- جبکہ عالم دین اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ مستند احادیث بیان کرے- اگر وہ کوئی ضعیف حدیث بیان کرتا ہے تو واضح کردے کہ ضعیف حدیث ہے-
یہ حدیث خصوصاَ َ تبلیغی جماعت والے اکثر بیان کرتے ہیں ۔ حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے
"قیامت کے دن ایک شخص کی ایک نیکی کم پڑ جائے گی۔ اللہ اس سے فرمائے گا کہ اگر تو ایک نیکی لے آ, تو تجھے جنت میں داخل کر دوں گا۔ پس وہ لوگوں سے ایک نیکی مانگے گا تو ایک شخص جس کے پاس صرف ایک نیکی ہو گی وہ اس کو اپنی نیکی دے دے گا تو اللہ اس کو بھی جنت میں داخل کر دے گا اور نیکی کرنے والے کو اس کے اس احسان کے بدلے میں جنت دےد ے گا"
لیکن میں کسی بھی کتاب میں اس روایت کو نہیں پاسکا ہوں۔
اور قرانی آیات کی روشنی میں یہ بات من گھڑت لگتی ہے کیونکہ قران میں ہے
:
{فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ (33) يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ }
پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آجائے گی (33) اس دن آدمی اپنے بھائی سے (34) اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے (35) اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا (36) ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامنگیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی۔[عبس: 33 - 37]
یعنی قرآن کے مطابق لوگ اپنے خونی رشتے سے بھی بھاگیں گے چہ جائے کہ کسی اجنبی کو اپنی نیکی دیں۔
ممکن ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہو ۔
بہرصورت یہ مردود ہے کیونکہ اس کی کوئی سند نہیں نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی کاقول نہیں اور اس کے ساتھ یہ قرآنی تصریحات سے متصادم ہے جیساکہ پہلے وضاحت کی گئی۔
یہ حدیث خصوصاَ َ تبلیغی جماعت والے اکثر بیان کرتے ہیں ۔ حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے
"قیامت کے دن ایک شخص کی ایک نیکی کم پڑ جائے گی۔ اللہ اس سے فرمائے گا کہ اگر تو ایک نیکی لے آ, تو تجھے جنت میں داخل کر دوں گا۔ پس وہ لوگوں سے ایک نیکی مانگے گا تو ایک شخص جس کے پاس صرف ایک نیکی ہو گی وہ اس کو اپنی نیکی دے دے گا تو اللہ اس کو بھی جنت میں داخل کر دے گا اور نیکی کرنے والے کو اس کے اس احسان کے بدلے میں جنت دےد ے گا"
لیکن میں کسی بھی کتاب میں اس روایت کو نہیں پاسکا ہوں۔
اور قرانی آیات کی روشنی میں یہ بات من گھڑت لگتی ہے کیونکہ قران میں ہے
:
{فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ (33) يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ }
پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آجائے گی (33) اس دن آدمی اپنے بھائی سے (34) اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے (35) اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا (36) ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامنگیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی۔[عبس: 33 - 37]
یعنی قرآن کے مطابق لوگ اپنے خونی رشتے سے بھی بھاگیں گے چہ جائے کہ کسی اجنبی کو اپنی نیکی دیں۔
ممکن ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہو ۔
بہرصورت یہ مردود ہے کیونکہ اس کی کوئی سند نہیں نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی کاقول نہیں اور اس کے ساتھ یہ قرآنی تصریحات سے متصادم ہے جیساکہ پہلے وضاحت کی گئی۔
Last edited: