میرے دِل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادِر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی اور نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پُوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دِن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا..
(فیض احمد فیضؔ )
ہوا پھر سے حکم صادِر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی اور نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پُوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دِن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا..
(فیض احمد فیضؔ )
از حد پسندیدہ