کیا ہم سب قصوروار ہیں؟ دلخراش انکشاف

  • Work-from-home

Armaghankhan

Likhy Nhi Ja Sakty Dukhi Dil K Afsaany
Super Star
Sep 13, 2012
10,433
5,571
1,313
KARACHI
While surfing, accidentally I came across an article published on web i, which is claimed as a research article of some student of some university in Karachi.. .. .. It was an eye opener... ...

کبھی آپ لوگوں نے سوچا کہ ہم جو آج ترقی کر رہے ہیں وہ کس حد تک مثبت ہے اور کس حد تک منفی ہے، ترقی کے نام پر جو زہر ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی رگوں میں داخل کر رہے ہیں وہ ہمیں اور ہماری پروان چڑہتی ہوئی نسل کو کس حد تک تباہ و برباد کر رہا ہے اس پر شاید ابھی ہم میں سے کوئی غور نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی رنگینی کچھ ایسی ہے کہ اس نے ہمارے سب مقدس رنگوں کو اپنے اندر مدغم کر لیا ہے، آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آج ہمارے بچے بچے کے پاس موبائل ہے، جس میں ہر منٹ کے حساب سے پیسہ ڈلتا ہے، اور کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ہماری آمدنی میں تو کوئ اضافہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برسوں میں خصوصا دور مشرفی میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ تقریبا چار سو فیصد کی حد سے تجاوز کر گئی ہے، اور بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ انڈسٹری تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے اور کاروبار کی حالت سب کے سامنے ہے کہ آج ایک ارب پتی بھی ماہانہ بجٹ بنانے پر مجبور ہے ۔ تو یہ غریب لوگ کیسے گزارا کر رہے ہونگے۔ ۔ ہمارا پیارا پاکستان جہاں غریب آبادی کا تناسب ۲۰۰۷ کے اختتام پر ۸۱ فیصد تک ہو چکا ہے۔ وہ لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو کیسے کھینچ رہے ہیں یہ وہی جانتے ہونگے۔ ۔ مگر اس غربت کے باوجود ترقی کرنے کی حوس، انڈین چینلز کی بھرمار، گلیمر، اور ان تمام چیزوں کے ساتھ قدم قدم سے ملا کر چلنے کی کوشش میں ہم گناہوں کی کیسی دلدل میں گر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو شاید آگے پڑہنے سے ہو جائے فالحال میں سرف شہر کراچی سے کلیکٹ کئے ہوئے اعداد و شمار آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور جو رپورٹ میں لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد کی دیکھ رہا ہوں وہ کراچی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ۔

کراچی کی آبادی ۔ تقریبا ایک کروڑ انیس لاکھ ...غیر سرکاری
مالدار طبقہ ۔ تقریبا دس فیصد
متوسط طبقہ ۔ تقریبا اٹھارہ فیصد
غریب طبقہ ۔ تقریبا باسٹھ فیصد جس میں انتہائی غریب طبقہ اسی فیصد ہے

گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فروخت ہوئے! اوسطا فی موبائل کی قیمت تین ہزار روپے رہی
گزشتہ پانچ سال میں مختلف موبائل کنکشنز دو کروڑ اسی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ مطلب یہ کہ کراچی میں فروخت ہونے والے سم کارڈز کی تعداد دو کروڑ اسی لاکھ ہے، جس میں سے ایکٹیو کنکشنز پچاسی فیصد ہیں، مطلب تقریبا تمام سم کارڈز وقتافوقتا استعمال ہوتے ہیں، شرط صرف بیلنس کی ہوتی ہے۔ جس سم میں بیلنس ہے وہ زیر استعمال ہے۔

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے ہر وقت
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔

ان اعداد و شمار پر ذرا غور فرمائیے کہ یہ جو روزانہ پیسہ بیلنس کی مد میں استعمال ہو رہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ بے روزگاری حد سے تجاوز کر چکی ہے، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،


۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی آج ایک ایسا شہر ہے جہاں زندگی انتہائی غیر محفوظ ہے، میں اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیوں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، روزانہ موبائل چھیننے کی وارداتیں ایک ایسا معمول ہیںکہ اب لوگ ایف آتی آر درج کراتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اب لوگ ایک دوسرے کو یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو اگر کوئی موبائل یا نقدی مانگے تو حیل و حجت نا کرنا۔ بلکہ اپنی جان کی فکر کرنا۔ ۔ ۔

جی تو اہل وطن یہی وہ نو جوان ہیں جو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں اور بعد میں کچھ سیاسی جماعتیں ان کو استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ان بچوں کو موبائل بیلنس کے، ہوشربا ملبوسات کیلئے، اور اپنی ساتھیوں کو بیلنس شئیر کرانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف جرائم اور عصمت فروشی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔

آج ہم یہ باتیں تو شئیر کر رہے ہیں مگر سوچنا یہ کہ ہمارے یہ بچے کس کی وجہ سے اس راہ پر جا رہے ہیں، اس میں ہمارا قصور کتنا ہے، ان والدین کا قصور کتنا ہے، جب بچی انیتہائ بھڑکیلا میک اپ کرکےگھر سے ٹیوشن سنٹرکا کہ کر نکلتی ہے تو اس پر یہ چیک کیوں نہیں لگتا کہ سنٹر کا ٹائم کیا ہے اور دورانیہ کتنا ہے۔ ۔ ۔ یا لڑکا جب رات کو بارہ بجے گھر میں داخل ہو رہا ہے تو باپ کیوں نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آرہے ہو،

بہرحال یہ وہ دلخراش حقائق ہیں جو ہم کو قبول کرنے ہونگے اور اس کے سدباب کے لئے محض سرکار کی طرف نہیں انفرادی طور پر سوچنا اور کوشش کرنا ہوگی۔ افسوس یہ ہے کہ جب میں پوسٹ محفل میں انٹر کرونگا تو بعض لوگ یہی کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہوتا محض الزامات ہیں اور غیر مصدقہ رپورٹ ہے، اس میں ایسے تمام خواتین و حضرات کو یہ پیشگی اطلاع دے دوں کہ اگر آپ اس قسم کی صورتحال کا اگر شکار نہیں ہیں تو پلیز یہ نا سمجھیں کہ پورا معاشرہ ہی ایسے چل رہا ہے، بلکہ یہ سوچیں کہ کہیں ہمارے ارد گرد بے خبری میں تو کیہں ایسا کچھ نہیں چل رہا ہے۔ ۔ ۔
 
Top