haan zahir si bat hy jab nahi aunga aidhar to nazar bhi nahi aye gi sorat kiya galat hy wasy bhi dil nahi karta ab any ka aidhar ajeeb log agy ajeeb baton k sath to hamari jagha to nahi banti hy na.....................
یہ خوب کہی آپ نے

بالکل غلط ہے


معذرت کے ساتھ لیکن واقعی ہم اختلاف رکھتے ہیں آپ کی اس بات سے۔۔کیوں جگہ نہیں ہے؟؟؟بات سنئیے محترم۔۔۔یہ دنیا ایسی ہے کہ یہاں اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ہے۔۔۔اور اسے قائم بھی رکھنا پڑتا ہے۔۔پوری سٹرگل کے ساتھ

کیوں یہاں تو ہر کوئی چھینا چھپٹی میں لگا ہے ۔۔اب یہ سیاست کی کرسی ہی دیکھ لیں

بیسائیڈ آ جوک

ہر جگہ مختلف مزاج و عادات اور اندازِ گفتگو رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ اپنی جگہ چھوڑ دے

اپنے مقام کو بنایا جاتا ہے۔۔پورے وقار اور استحقاق کے ساتھ۔۔۔ لوگوں کے رویوں کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹا جاتا۔۔۔

تکلیف دہ رویوں کا حساب لینے کے لئے خدا کی ذات موجود ہے

یہاں اس دنیا میں ہمارا صرف اتنا کام ہے کہ ان رویوں اور افعال کی وجہ سے ہم لوگوں کا اندازِ گفتگو، اور دوسروں کے ساتھ میل جول تکلیف دہ نہ ہو

کیونکہ اس کا حساب ہم لوگوں کو خود دینا ہے ۔۔۔روزِ محشر ہم اپنے گناہ یا کسی اور بات کا موجب کسی اور کی ذات نہیں ٹھہرا سکتے۔۔کہ فلاں نے ایسے کیا تھا تبھی ہم نے ایسا کیا۔۔۔۔یا یہ کہ اس کے پیچھے یہ ریزن تھی یا یہ پسِ منظر۔۔۔

غیر مناسب، غیر مہذبانہ اور تکالیف دہ رویوں کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مخاطب کو خود احتسابی کی طرف لے جاتا ہے

وقت سانپ کی طرح گزر جاتا ہے اور پیچھے
تکلیف دہ رویوں اور تلخ یادوں کی لکیر چھوڑ جاتا ہے۔۔۔ جہاں ان لوگوں کے نام کندہ ہوتے ہیں جن سے ایذا پہنچی ہوتی ہے۔۔

اور قلب کو دی گئی تکالیف کبھی بھولتی نہیں ہیں

لیکن اس کا واویلہ کرنا بھی عقلمندی نہیں۔۔۔کیونکہ بہت سے لوگ احساس سے عاری ہوتے ہیں۔۔۔ احساس بہت قیمتی چیز ہے جو ہر شخص کے پاس نہیں ہوتا

۔ وقت ہر انسان کو اس کی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں سب سمجھا دیتا ہے۔۔۔ اور بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملتا

بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس پچھتاوے کے مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی سنبھل جاتے ہیں ۔۔۔بہت کم لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں اس دنیا میں وجود کو قائم رکھنا ہی نہیں اپنی روح کی بقاء بھی ضروری ہے۔۔۔ اگر ہم روح کو صحیح غذا فراہم کریں گے تو یہ نیگیٹیویٹی کا انحراف کرنے کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔۔۔۔انسان کے حسنِ اعمال میں اتنی پاور ہونی چاہیئے کہ وہ اس نیگیٹیویٹی سے خود کی شخصیت کو متاثر نہ ہونے دے

جب کسی زمین پر خوبصورت پودے اور پھول اپنی جگہ بنا لیں تو جڑی بوٹیوں کو پھلنے پھولنے کا وقت نہیں ملتا۔۔یہی مثآل ہمارے اردگرد کے ماحول کی ہے جسے ہم سب لوگوں نے مل کر اچھا بنانا ہے۔چاہے وہ یہ ٹی ایم ہے، گھر ہے، پاکستان ہے یا پوری دنیا۔۔۔۔۔
۔۔نیگیٹٰویٹی ہمیشہ پوزیٹیویٹی کو ریپیل کرتی ہے۔۔یہ قانونِ فطرت ہے

لیکن پوزیٹیویٹی سٹرونگ ہو جائے تو نیگیٹیویٹی کا وجود نہیں رہتا۔۔۔اور کبھی کبھی یہ پوزیٹیویٹی میں ضم ہو جاتی ہے۔۔۔ ۔ باقی آپ اتنے سمجھدار تو ہوں گے کہ ہم کیا کہنا چاہ رہے

ایویں ای سیریس کر دیا ہمیں

۔