وفائیں بیچ کر میں پتھر خرید لایا ہوں،،
یہ جو تیرا عشق ہے یہ اس کہ قابل ہے،،،
نہ لحاظ عشق نہ لحاظ رقیباں ہے بس اک کہانی سے،،
تو جن اغیار میں ہے بس انہی کہ قابل ہے،،
ہمارا سچ ہے جھوٹ ،، جن کا جھوٹ ہے تمہارا ایمان،،،
تم اب انہی شرباز کہ ہی قابل ہے،،،
ہمارا نام نہ جوڑو اپنے پاکیزہ نام کہ اب ساتھ،،
ہم برے لوگ الزامات و اعتراضات کہ قابل ہیں،،
ہیں ہم میں خامیاں ملی ہے ہم کو ناکامیاں،،
تم نے تو جیتنا ہے تمہارے اب محفلیں تمہارے انعامات کہ قابل ہے،،،
وسوسے ہیں ہمیں بدگمانیاں بھی رہیں گی تاعمر،،،
مگر ایسے سے ملنا اب ہمارے احساسات کہ مدمقابل ہے،،،
جن کی باتیں بہاتی تمہیں قصیدے اب اس کہ بھرتے ہو،،،
ہم بوسیدہ ہوئی دیوار مسمار کہ قابل ہیں،،
ہوں مبارک تمہیں یہ ہجوم یہ خوش مزاجیاں،،
ہم پرانے لوگ پرانے ادوار کہ قابل ہیں،،،
پھر سے کہتے ہیں تمہیں یہ تعلق لاتعلق اب،،
ہم بگڑے ہوئے بگڑے ہوئے حالات کہ قابل ہیں ،،