یوں ہی آباد رہے گی دنیاجانے کیوں اک خیال سا آیا
ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی ہو گی؟
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیںزبانیں کاٹ کر رکھ دی گئیں نفرت کے خنجر سے
یہاں کانوں میں اب الفاظ کا رس کون بھولے گا
ہمارے عہد کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے۔
ہمیں یہ غم ہے کہ مستقبل میں اردو کون بولے گا
زرا سی ٹھیس لگتی ہے زرا سا ٹؤٹ جاتا ہے ۔مرے وہم و گماں سے بھی زیادہ ٹوٹ جاتا ہے
یہ دل اپنی حدوں میں رہ کے اتنا ٹوٹ جاتا ہے
میں روؤں تو در و دیوار مجھ پر ہنسنے لگتے ہیں
ہنسوں تو میرے اندر جانے کیا کیا ٹوٹ جاتا ہے
میں جس لمحے کی خواہش میں سفر کرتا ہوں صدیوں کا
کہیں پاؤں تلے آ کر وہ لمحہ ٹوٹ جاتا ہے
مرے خوابوں کی بستی سے جنازے اٹھتے جاتے ہیں
مری آنکھیں جسے چھو لیں وہ سپنا ٹوٹ جاتا ہے
نہ جانے کتنی مدت سے ہے دل میں یہ عمل جاری
ذرا سی ٹھیس لگتی ہے ذرا سا ٹوٹ جاتا ہے
میری آنکھوں کے سیاہ حلقوں پہ ہنسنے والواس بات کے ضامن ہیں تیری آنکھ کے حلقے
دکھ اور بھی ہیں دل کے مضافات سے آگے
ہوں۔۔خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کسی اور کا منظورِ نظر تھا ورنہ
عین ممکن تھا کہ وہ شخص ہمارا ہوتا
ہممم۔۔۔۔۔بہترین
لازم نہیں کہ نام کی تختی لگائی جائے
سب لوگ جانتے ہیں تیری معرفت مجھے
اِسے ہونا چاہیئے تھازرا سی ٹھیس لگتی ہے زرا سا ٹؤٹ جاتا ہے ۔
خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وجود میں سانسوں کی آگہی کے لئے
تمہارا مجھ میں دھڑکنا بہت ضروری ھے
غزل لکھنے والے نے لکھ دیا۔۔۔اِسے ہونا چاہیئے تھا
زرا سی ٹھیس لگتی ہے، بہت سا ٹوٹ جاتا ہے۔
آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تیری یادیںاپنے گھر کو واپس جاٶ رو رو کر سمجھاتا ہوں
جہاں بھی جاٶں تیرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کیسو بار کہا دل سے وہ کوٸی نہیں میرا
سو بار صدا آٸی تم دل سے نہیں کہتے
جی چاہتا ہے لوٹ جاؤں آسماں کی طرفممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میں تجھے ڈھونڈنے یادوں کی کُھلی سڑکوں پرتجھے ڈھونڈنے کے لیئے یادوں کی کُھلی سڑکوں پر
خُشک پتوں کی طرح روز بکھر جاتا ہوں
ہائے۔۔۔کمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکسِ جاناں کی خیر ہو یا رب
خواب آنکھوں سمیت ٹوٹا ہے
ہتھ جوڑ کے ماہی عرض کراںاے بچھڑ کر نہ لوٹنے والے
دکھ کی راتوں میں نہ یاد آیا کر
تیز خنجر کے زخم کو چھوڑو
آؤ لہجوں کی بات کرتے ہیں
مرے داغ دل وہ چراغ ہیں نہیں نسبتیں جنہیں شام سےاچھا نہیں ہے یوں، دلِ سوزاں کو چھیڑنا
جلتے ہوئے چراغ سے کھیلا نہ کیجئے
عجیب طرز تخاطب روا ہوا اب کےزباں دراز نہیں ہوں تمھارے جیسا مگر
تمھارے جیسوں کو رستہ دکھانا آتا ہے
زمیں اٹھا کے میں مریخ پہ نہ دے ماروںستارےتوڑ کر سب آسماں اندھیر کر ڈالوں
کہ میرے جی میں آتا ہے زمانہ ڈھیر کر ڈالوں
To e continued......