جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اس کے بارے ميں سوچو تو فاصلہ نکلے
نکلے کا ن
نا سپاسی کی بھی حد ہے جو یہ کہتے ہو فراز
زندگی ہم نے گزاری ہے گزارے کی مثال
جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اس کے بارے ميں سوچو تو فاصلہ نکلے
چلو مل کر اقبال کہ گھر کو ڈھونڈیں
کہ میں بھی اسے دیکھنا چاہتا ہوں
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ھاتھ ملانے والا
رات اک خواب سنایا تھا ہوا کو میں نے
صبح سے پھرتے ہیں تعبیر بتاتے ہوئے لوگ
جن کہ صدقے میں بسا کرتے تھے اجڑے ہوئے لوگ
لٹ گئے ہیں سر صحرا وہ گھرانے کب سے
سے سے س
سیکھ نہیں پایا میں میٹھے جھوٹ کا ہنر
کڑوے سچ نے کئی لوگ چھین لئے مجھ سے
نہیں سے نپھر یوں ہوا کہ تیرا ساتھ چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ بھی نہیں
رکھا ہی کیا ہے گھر میں کہ جسے ترتيب دوں
کچھ خواب ادھر سے ادھر کر رہا ہوں میں
دیکھا سے د
ہم نے دیکھا کہ رغبت تو ہوئی اکثر ہم کو
پہلا عشق مگر پھر سے نہیں ہوتے دیکھا
Kavi
دیکھا سے د
دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے
جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے
ہے کا ہ
ھم وہی سینہ صد چاک لیے پھرتے ھیں
تم تو کہتے تھے تمہیں بخیہ گری آتی ھے
سنا ہے اب بھی مرے ہاتھ کی لکیروں میں
نجومیوں کو مقدر ۔۔۔۔ دکھائی دیتا ہے
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تیرے شہر سے گزرتے ہوئے مر جاتے ہیں
کون تولے گا ہیروں میں اب تمہارے آنسو
وہ جو اک درد کا تاجر تھا دوکاں چھوڑ گیا
رات گزری بے سبب تڑپتے میر
آنکھ لگ جائے گر سو لو تم
ہوا کے زخم سہکر بارشوں کی چوٹ کھا کھاکر
چھتوں کو روزنوں کو آسرا دیتی ہیں دیواریں
سب نظر کا فریب ہے ورنہ
کوئی ہوتا نہیں کسی کی طرح
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس حجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
میں سے م
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر
ہم سماعت کو ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں
شام ہوتے ہی اداسی کو بہانے کے لئے
کتنے دریا ہیں جو آنکھوں سے نکل پڑتے ہیں