اگر تم سے کوئی پوچھے تمہاری زندگی کیا ہےاسکے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی تمنا ہے
اسکے دل میں کوئی چاہت کیسے
ہتھیلی پر ذرا سی خاک رکھنا اور اڑا دینا
اگر تم سے کوئی پوچھے تمہاری زندگی کیا ہےاسکے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی تمنا ہے
اسکے دل میں کوئی چاہت کیسے
پہلے تو ہم چھان آئے خاک سارے شہر کیپلٹ کر آ گیا لیکن یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ ،
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے وہیں چھوڑ آیا ہوں۔
اُسے جانے کی جلدی تھی، سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں ،
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہیں تک چھوڑ آیا ہوں۔
پھر اس کے بعد یہ بازارِ دل نہیں لگناسالوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خدوخال سے بھر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں سے اُداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محبت کا بھنور کیوں نہیں جاتا...
پسِ غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھاﺳﻠﺴﻠﮧ ﭨُﻮﭦ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ، ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ
بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جانیہ اور بات ہے کہ تیرے رو برو نہیں گزرا
میں جس عذاب سے گزرا ھوں ،... تو نہیں گزرا
واہزندگی سکون سے گزر جائے
اگر وہ ذہن سے نکل جائے....
انھی راستوں پہ چل کے آ سکو تو آوﺗﻢ ﺑﻨﺎﺅ ﮐﺴﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ویران ﺭاﺳﺘﮧ
ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ
زندگی کیا۔ کسی مفلس کی قبا ہے جس میںزندگی سکون سے گزر جائے
اگر وہ ذہن سے نکل جائے....
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدمسالوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خدوخال سے بھر کیوں نہیں جاتا
آنکھوں سے اُداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محبت کا بھنور کیوں نہیں جاتا...
نہ جانے کس لئے امیدوار بیٹھا ہوںﺁﻧﮑﮫ ﮐﮩﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻠﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮨﻢ
ﺩﻝ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ
ﻟﻮﺡ ﺩﻝ ﭘﮧ ﯾﮩﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻟﮑﮭﯽ ﮬﮯ
ﻋﺸﻖ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﺳﮯ
ﺳﻮﭺ ﮐﯽ ﺗﮩﮧ ﺗﮏ ﺟﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﻮﮞ
مجھے کیا پڑی ہے تیرے در سے اٹھوںرُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے
بس ایک موڑ میری زندگی میں آیا تھامُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست
بہت خوبتمام جذبوں پہ معتبر تها
اداس آنکھوں سے مسکرانا..
واہتیری زلفیں بکھرنے کو گھٹا کہہ دوں تو کیسا ہو
تیرے آنچل کے اڑنے کو صبا کہہ دوں تو کیسا ہو
بظاہر چپ ہو لیکن پھر بھی آنکھوں میں ہیں افسانے
تیری خاموشیوں کو بھی صدا کہہ دوں تو کیسا ہو...
دل کو چھونے والی نظمکتنا بوجھل سا لہجہ تھا
جب تو نے مجھ سے پوچھا تھا
پیار کے بارے میں کچھ بولو
عشق کی ساری رمزیں کھولو
پیار عبادت کیوں ہوتا ہے؟
درد کی کوئی حد ہوتی ہے؟
ہجر قیامت کیوں ہوتا ہے؟
کتنا بوجھل سا لہجہ تھا
تو نے جب یہ سب پوچھا تھا
اور میں اس بوجھل لہجے میں
خود کو جلتا دیکھ رہا تھا
واہوہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
ہے استعارہ غزل اس سے بات کرنے کا
یہی وسیلہ ہے اب اس سے بات ہونے تک
میں اس کو بھولنا چاہوں تو کیا کروں عادل
جو مجھ میں زندہ ہے خود میری ذات ہونے تک
دسمبر کے حسین دن تھےایک شب اپنے دریچے میں کھڑے تھے جاناں
اور باہر کے اندھیرے سے کوئی دیکھے تو
اپنے چہرے تھے جو کھڑکی میں جڑے تھے جاناں
مجھ کو تو معلوم ہے خوں اپنا بس اک دائرہ ہے
درد کا کھیل فقط لمحہ موجود کا ہے
پچھلی تاریخ سے آغاز نہیں ہو سکتا
بھول جاؤں تو کوئی انداز نہیں ہو سکتا
بھول جاؤں تو کوئی یاد نئی آئے گی
یہ کوئی حل کوئی انداز نہیں ہو سکتا
اب بھی آئی ہے بہار آ کے چلی جائے گی
مجھ کو معلوم ہے خوں اپنا بس اک دائرہ ہے
اتفاقاً کبھی میں پیدا ہوا تھا جیسے
جب مری موت بھی آئے گی یونہی آئے گی
آئی نہ تھی کبھی میرے لفظوں میں روشنیغضب کی سیکھی ہیں اس نے محبتیں مجھ سے
جس کسی سے کرے گا کمال کر دے گا
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمامجو کھویا اس کا غم تو ہے
جو پایا ہے وہ بھی کم نہیں
جو نہیں ہے وہ اک خواب ہے
جو حاصل ہے وہ بھی لاجواب ہے