یہ معملہ کرامت ہے جو خالص اللہ کا فعل ہوتا ہے جب چاہئے اپنے بندوں میں ظاہر فرمادیتا ہے۔ یہ جو واقع آپ نے شیئر کیا ہے تو اس کے لئے گزارش ہے کہ اُن کا آنا مثالی طور پر تھا جیسے بعض لوگوں کو خواب میں اپنے دوست کے ملاقات ہو جاتی ہے۔ تو جو دوست خواب میں آتا ہے وہ مثالی صورت میں ہوتا ہے یہ نہیں کہ رات کو وہ آپ کے دماغ میں جسد عنصری کے ساتھ گھس جاتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مثالی صورت میں آنے سے یہ ضروری نہیں کہ صاحب قبر کو بھی علم ہو کہ میری مثالی صورت کو فلاں شخص خواب میں دیکھ رہا ہے۔ خواب میں کسی دوست کا آنا اس کی مثال ہے۔
روح چاہے کہیں بھی ہو اس کا ایک خاص تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس کے تحت مردہ فرشتوں کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ عذاب قبر ہوتا ہے اور اگر مردہ نیک ہو تو راحت سے مستفید ہوتا ہے۔
عزاب قبر کے متعلق احادیث
ترجمہ:
آنحضرت ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عزاب ہورہا ہے لیکن کسی بُرے گناہ میں عزاب نہیں ہو رہا ایک کو تو اس لئے عزاب ہورہا ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر یئے ایک حصہ ایک قبر میں گاڑدیا اور دوسرا دوسری قبر میں پھر فرمایا کہ ان سے عزاب ہلکا ہوجائے جب تک کہ یہ تہنیاں چشک نہ ہوں۔
(مسلم جلد 1 صفحہ 141، بخاری جلد 1 صفحہ 35)
ظاہر ہے یہ عزاب قبر اُسی صورت میں ہوسکتا ہے جب روح کا ایک خاص تعلق مردہ سے ہو تبھی تو وہ محسوس کرے گا اس عذات کو۔ اسی کو حیات برزخی کہتے ہیں
حدیث نمبر 2
آنحضرت ﷺ خچر پر سوار ہو کر بنو بخار کے ایک باغ میں جارہے تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے یکایک خچر بدکا قریت تھا کہ آپ کو گرادیتا معلوم ہوا کہ وہاں بانچ یا چھ قبریں تھیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان قبروں میں کون لوگ دفن ہین؟ کوئی جانتا ہے؟ ایک شکص بولا ہاں حضرت میں جانتا ہوں یہ دو شرک میں فوت ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس امت (یعنی مکلف انسانوں) کا قبروں میں امتھان ہوتا ہے اگر مجھے یہ در نہ ہو کہ تم مردوں کو دفن نہیں کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمھیں بھی سنا دے۔
(مسلم جلد 2، مشکوۃ جلد 1 صفحہ 25)
یہ تمام معملہ اُسی صورت ہو سکتا ہے جب روح اور جسم کا ایک خاص تعلق موجود ہو اگر یہ تعلق نا مانا جائے تو صحیح حدیث مبارکہ کا انکار لازم آئے گا۔
قبر کا مفہوم
لفظ قبر کا اطلاق اس گڑھے پر کیا جاتا ہے جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے اور جس میں اس کا جسد عنصری رکھا جاتا ہے ۔ اُپر نقل کی گئی حدیث مبارکہ سے بات پر نص صریح ہے جس میں حضور ﷺ نے کھجور کی ٹھنیی لگائی اور حضور ﷺ کا خچر بدکا تھا ظاہر ہے کہ وہ حسی قبر ہی تھی کیوں کہ خچر کی رسائی تو سچین کے مقام پر تو نہیں ہوتی بلکہ سطح ارضی پر ظاہری اور حسی قبروں کے آس پاس چلتے اور چرتے پھرتے رہتے ہین۔ ایک اور حدیث ہے کہ
ترجمہ
میت جب قبر میں رکھی جاتی ہے اور دفن کرنے والے اس سے واپس ہوتے ہین تو وہ ان کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ کو سُنتی ہے۔
(بخاری جلد 1 صفحہ 178 و مسلم جلد 2 صفحہ 386)
میت جس قبر میں رکھی جاتی ہے اور دفن کرنے والے جب قبر سے واپس ہوتے ہین تو وہ یہی حسی قبر اور گڑھا ہوتا ہے
حضرت عمرو بن العاصؓ نے وفات کے وقت اپنے پیٹے کو وصیت کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو اور میری قبر پر مٹی دال چکو
تو میری قبر کے ارد گرد اتنا وقت کھڑا ہونا چتنے میں اونٹ ذبح کر کے ان کا گوشت تقسیم کیا جاسکتا ہوتا کہ میں تمھارے ساتھ مانوس ہو کر اللہ تعلایٰ کی طرف سے آئے ہوئے فرشتون کو جواب دے سکوں۔
(مسلم جلد 1 ص 76)
اس حدیث سے بھی صحابی کا عقیدہ معلوم ہوا کہ میت کی روح اور جسم کا ایک خاص تعلق بعد از مرگ موجود رہتا ہے جس کے تحت وہ فرشتوں کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ قبر حسی گھڑے کو کہتے ہیں جس میں میت کی تدفین ہوئی ہوتی ہے۔
قبر کا مجازی معنی
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میت کا جسم محفوظ نہیں رہتا، مثلاََ وہ آگ میں جل جاتا یا جلادیا جاتا ہے یا دریا بُرد ہوجاتا ہے اور اس کو مچھلیاں وغیرہ چانور پڑپ کرجاتے ہٰن یا درندے اور پرندے اس کو کھا جاتے ہٰن اور قبر میں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تو کچھ باطل فرقوں نے اپنے عقل کے کھوڑے کو دوڑایا اور حیابِ برزخی کا انکار کر دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قبر صرف اور صرف حسی گھرے کا نام نہیں ہے۔بلکہ قبر اس سے قسیع تر مفہوم رکھتی ہے۔ عذاب قبر اور عذاب برزخ ہی کو کہتے ہیں۔ جن لوگوں کو کسی عذر کی وجہ سے دفن نہیں کیا جاتا یا اُن کے جسم کو کوئی جانور کہاجاتا ہے یہاں تک کہ اُس کی راکھ بن جاتی ہے تو بھی اُسے عذاب محسوص ہوگا اور یہ عذاب روح اور اس کے جسم کے اجزائے کے درمیان ایک خاص تعلق کی بدولت ہوتا ہے جس کو عام انسان نہیں دیکھ سکتے۔
حدیث
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک شھص نے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اُس نے اپنے پیٹوں سے کہا کہ جب میں مرجاؤن تو تم مجھے جلا کر میری راکھ کو خوب پیش کر ہوا میں اڑادینا بخدا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تنگی کی تو مجھے وہ ایسی سزادے گا جو اور کسی کو ان نے نہیں دی جب اس کی وفات ہوئی تو اس سے یہی کاروائی کی گئی اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے نمام ذرات کو جمع کر دے سو اس نے ایسا ہی کیا جب وہ جمع کردیاگیا تو وہ آدمی تھا جو کھڑا کردیا گیا فرمایا کہ یہ کاروائی تو نے کیوں کی، اس نے کہا تیرے ڈر سے اے میرے پروردگار سو اللہ تعالٰی نے اسے بخش دیا۔
(بخاری جلد 1 صفحہ 495
۔ اس مضمون میں اور بہت سی حدیث مبارکہ اور بھی ہیں لیکن ادھر صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ حیات برزخی سب کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ حیات انبیاء ، شہید، صالحین میں دوسروں کی نصبت بہت مضبوط ہوتی ہے اس لئے ان کو بعض لوگ دنیاوی کی سی حیات کہا دیتے ہیں۔