theekOops okay u can delete them siso
lekin ab agar bina daleel wali post
delete na huwi to me naraz ho jaunga
@hoorain sis
lekin acording to topic ayenge to yehi sawal paida hojata hai ke qabar main leta hoa murda zameen per chalne phirne wale zinda insan se koi talluq kaise rakh sakta hai?koi pukaar kaise sun sakta hai or pukaar sun ker us zinda insan ki koi madad kaise kar sakta hai jabke apki ahadees ki roshni main hi yeh bat sabit ho rhi hai ke woh murda sirf apne amaal ka hisab deta hai or sirf apne amaal ki hi wajah se saza o jaza ka mustahiq paya jata hai?
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔aap logon k sawal-o-jawab hmmm
Continue hi rakhna hay to ab sequence may chlain!
@Fitna e Dil pehle @DuFFer ne above post may kuch sawalaat pooche hain pehle un k jawab dain aap Quran-ohadith ki roshni may...
phir @S_ChiragH aap in k jawab dain quran-o-hadith ki roshni may
phir @Fitna e Dil aap mazeed kuch kehna chahain to bolain Quran-o-hadith ki rroshni may
Quran-o-hadith k ilawa koi bhi kisi ka bhi NAam aaya to wo post delet hogi!
Is sequence pe chalne ko aap sab tyar hain to aapki discussion continue karne ki permission deti hun otherwise aapki ye bhi aur sabki agli posts delete hongi
aur @Fitna e Dil aap ne meri ye baat teesri dafa ignore ki hay ...kheriyat?
YAhan abhi Quran-o-hadith se hi baat kar saktey hain q k authentic hain sahih bukhari sahih muslim and Quran paak,,,is k ilawa kisi bhi hawaley se baat hogi to us may behas ki bohat gunjaysh hay,,is liye apa sab avoid karain!حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیںاس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔ میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔ یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکاراب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔نوٹبزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔ [DOUBLEPOST=1348514382][/DOUBLEPOST]
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔
آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عقیدہ جس پر حدیث پیش کی جاتی ہے اور ایک ہوتا ہے عقیدے کی تفصیل جس کو قرآن، حدیث، صحابہ کرام، مفسرین، محدیثین، فقہا کرام سے ثابت کیا جاتا ہے کیوں نکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں بلکہ اہم اور بنیادی عقائید کا بیان ہے اسی طرح حدیث مبارکہ کو سمجھنے کےلئے بھی اسلاف کے اقوال کی ضرورت ہوتی ہے اپنی من مانی تشریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو کہیں بھی ایسا لگا کہ میں نے آپ کی بات کو اگنور کیا ہے تو اس کے لئے معاذرت۔ لیکن اپنی اس پوسٹ میں، میں نے صرف حدیث مبارکہ پیش کی ہیں
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیںاس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔ میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔ یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکاراب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔نوٹبزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔ [DOUBLEPOST=1348514382][/DOUBLEPOST]
حورین صاحبہ (؟)۔۔۔۔
آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عقیدہ جس پر حدیث پیش کی جاتی ہے اور ایک ہوتا ہے عقیدے کی تفصیل جس کو قرآن، حدیث، صحابہ کرام، مفسرین، محدیثین، فقہا کرام سے ثابت کیا جاتا ہے کیوں نکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں بلکہ اہم اور بنیادی عقائید کا بیان ہے اسی طرح حدیث مبارکہ کو سمجھنے کےلئے بھی اسلاف کے اقوال کی ضرورت ہوتی ہے اپنی من مانی تشریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کو کہیں بھی ایسا لگا کہ میں نے آپ کی بات کو اگنور کیا ہے تو اس کے لئے معاذرت۔ لیکن اپنی اس پوسٹ میں، میں نے صرف حدیث مبارکہ پیش کی ہیں
حق وہ ہے جو جمہور کے ساتھ ہے اور وہ جو حدیث سے ثابت ہے۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہیوں گا۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے اقارب پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں اگر عمل اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر دوسری مد کے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیںاس طرح کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے مسند احمد جلد3اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے اعزیز و اقارب پر پیش ہوتے ہیں جس پر میت خوش بھی ہوتی ہے اور اگر ہمارے اعمال بُرے ہوں تو ہمارے لئے دُعا بھی کرتے ہیں۔ میت کا دُعا کرنا ہمارے گناہ بخشوانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ مردہ ہماری پکار کو سُنے بلکہ اللہ ہماری پکار کر میت تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اور میت مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ منو ٹن مٹی تلے آپ زندہ ہوں تو بھی جوتیوں کی آواز نہیں سن سکتے لیکن میت سن لیتی ہے جس پر پہلے ہی حدیث پیش کر دی گئی ہے تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد از موت میت کی سُنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے تبھی تو تو دفنا کر جانے والوں کی جوتیوں کی کھٹکٹاہٹ سنتا ہے۔ یہ سب عالم برزخ میں ہوتا ہے جسے قبر کہتے ہیں اس لئے یہ ہماری آنکھ سے اوجہل ہوتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ اب سوال یہ ہے کہ میت دعا کیسے کرتی ہے تو عرض ہے کہ میت کے سماع پر اختلاف ہے لیکن انبیاء کرام کی سماع پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سخت قحط پڑا اور بڑی تکلیف پیش آئی۔ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی آپ کی امّت نہایت تکلیف میں ہے۔اسکی ہلاکت اور بربادی کا خطرہ ہے آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ بارش برسائے۔آپ کی قبر کے پاس یہ شخص دعا کرکے چلاگیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤانکو میرا سلام کہہ دو اور خوشخبری دے دو کہ انشاء اللہ بار ش ہوگی۔اور عمر رضی اللہ عنہ کو میری نصحیت دو کہ عقل کو لازم پکڑے۔ (یعنی جلد سے جلد صلوٰۃ استسقاء پڑھائے) صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا خواب کا ماجرا سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔البدایہ والنھایہ از ابن کثیر1069 طبع بیت الافکاراب دیکھیں راہت بھی کامل حاصل تھی حضور ﷺ کو لیکن پھر بھی صحابی نے حضور ﷺ کے روضہ مبارکہ پر جاکر امت کی تکلیف کی شکایت کی اور امت کی بربادی اور اللہ سے بارش برسانے کے لئے بطور سفارش درخواست بھی کی۔ اس اثر سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ بعد از وفات سنتے بھی ہیں اور اپنی امت کے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں۔نوٹبزرگانِ دین اور عام میت کے سماع اور دعا بعد از وفات میں اختالاف ہے بعض لوگ اس کے قائیل ہیں بعض نہیں لیکن انبیاء کے سماع اور سفارش میں اختلاف نہیں جس کی دلیل دےدی گئی ہے۔
mujhe apki start wali baaty boht hi pyaari lagi ke haq woh hai jo jamhur ke sath or hadith se sabit hai lekin jo hadith apne hazrat jabir rz ki riwayat se batayi us hadith ka apne koi reference hi nhi dya ke banda tasdeeq hi krle
jabke jis hadith ka apne reference dya hazrat anas rz ki riwayat se to phir woh hadith hi nhi batayi apne ke banda koi sabaq hi seekh le
jabke hazrat umer faroq rz ke jis waqia ko apne daleel kaha us waqie ke sacha hone ki koi daleel hi pesh nhi ki apne jabke aise karamati waqiat to sms per bhi boht ghoom rahe hote hain lekin inki tasdeeq kisi bhi islami authentic book se nhi hoti
to plz ap mujhe sirf yeh bata di jiye ke woh banda jo haq janna chah rha ho woh quran ki us ayat per yaqin kare jo surat name or ayat number ke sath pesh ki jati hai ya us hadith per yaqin kare jo complete reference se yahan tak ke hadith number tak bata ker pesh ki jati hai
ya phir us hadith per yaqin kare jiska reference hi nhi dya jata ya aise reference per hi yaqin karle ke jis per hadith hi nhi batayi jati ya phir aise waqiaat per yaqin karle ke jinke mangharat na hone ki koi tasdeeq hi nhi hoti?
ان سب باتوں کا جواب آپ نے دینا ہے اگر آپ کو اس حدیث پر اعتراض ہے۔Pehli baat is hadeeth ki kitab ka jaameh koun tha ??
kis ne yeh hadeeth apne kitab me naqal ki ??
khair agar aapke hisab se yeh hadeeth sach me hadeeth hi hai
to iska arabic matan aur iski sanad peish karen taake hum jawab dein .
sir jee abu daod or masand e ahmed kafi jamey kitaben hain main kaise dhondonga is hadith ko un books main ap mujhe jild number and hadith number b to btayen na main apna aqidah change karne ja rha hon islaam se related apni thinking change krne ja rha hon to mera yeh haq banta haina main apki batayi hoi hadith ki tasdeeq b karunحدیث کا حوالہابوداود طیالسی کی حدیث ہے، اور مسند احمد میں بھی حضرت انس کے طریقہ سے بھی روایت کیا ہےاس مضموں کی کئی ااحادیث شرح الصدور میں مرفوعاََ موجود ہیں اس کے علاوہ امام غزالیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب احیاء العلوم جلد 4 میں بھی اس مضمون کی حدیث پیش کر کے عرض اعمال پر استدلال کیا ہے۔
sir jee abu daod or masand e ahmed kafi jamey kitaben hain main kaise dhondonga is hadith ko un books main ap mujhe jild number and hadith number b to btayen na main apna aqidah change karne ja rha hon islaam se related apni thinking change krne ja rha hon to mera yeh haq banta haina main apki batayi hoi hadith ki tasdeeq b karun
thank you very much mujhe bas yehi janna tha or yeh hadees hi is bat ko sabit karti hai ke hamare amaal hamare fotzadah logon ke samne rakhe jate hain yani woh hamare amaal dekh rahe hote hain ache hote hain to khush b hote hain or bure hote hain Allah se dua bhi karte hain ke Allah inhe b hidayat de jis tarha hamen hidayat ata farmayiسکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084 [DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
thank you very much mujhe bas yehi janna tha or yeh hadees hi is bat ko sabit karti hai ke hamare amaal hamare fotzadah logon ke samne rakhe jate hain yani woh hamare amaal dekh rahe hote hain ache hote hain to khush b hote hain or bure hote hain Allah se dua bhi karte hain ke Allah inhe b hidayat de jis tarha hamen hidayat ata farmayiسکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084 [DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
Bismillahir rahmanir raheemAssalaamu alaikum TM jese ke aaj se pehle humare thread lagane ka maqsadkabhi kisi ki dil azaari nahin thi wese hi aaj bhi hum kisi ke dil dukhane ke liyeyahaan haazir nahin hain balke kuch aisi baaten jinhein ISLAM ka chola pehneyahood o nassaara se paise wasool kar kuch bad kaar ULMA kehlane waleISLAM ka hissa bana dete hain jo dar asal ISLAM to door ki baat INSANIYATke taur se bhi aqal me nahin bethtin wese tamaam jahilana nuqton aqeedonme se eik bara nuqta hai Qabaron me zindagi bohot se behek kar behkadene wale ise ISLAMI aqeeda qaraar dete hain ke jo ANBIA o AULIA a.s hainwo marte nahin bas makaan badal lete hain unhein qabar mein wahi zindaginaseeb hoti hai jo jesi yahan hum jee rahe hain aur koi yahan aa kar yeh nakeh de na samajh le ke CHIRAGH apni taraf se bol raha hai
dalaiyl to kutub se is mutabiq mazeed bhi beshumar hain lekin humara kaamkisi ki buraaiy nahin kisi ko kousna nahin balke sach ko aage lana hai aurjab yeh baat saamne aa gaiy ke yeh mangharat aqeeda waqaiy meMUSALMAANON me phelaya ja chuka hai woh bhi jo buzargaan e deenkehlate hain dar asal hain nahin wo loug phela gaye so absub se pehle dekhte hain kya is baat ki ISLAM me koi daleel hai so jawabhai haan ji eik ayat hai lekin bina tafseer ke parhiyega kyunke uske tafseermein jayengen jo khud RasoolALLAH saww ne bayan farmaiy hai sois aqeede ke khilaf hai jaati hai naa chalen humen bhi is aqeedeke khilaf hi jaana hai kyunke hum adhoori baat samajhne waledeen ko apni marzi se phirane wale nahin balke mukammal QURAN SHAREEFmukammal taur se ahadees per yaqeen o aetmaad karne wale hainso us ayat aur uski tafseer ko dekh lein ?? us ayat ka tarjuma kuch youn haijo loug ALLAH ki raah me maare jayen inhein murda na kahobalke woh zinda hain apne RAB ke haan rizq paate hainab eik aam se MUSALMAAN ke zehen me is ayat se yehi baatbethegi ke wo zinda to hain per apne RAB ke haan matlabjannat mein theek ?? lekin kuch loug iski tafseer karte hainke iska matlab hai qabaron me zinda hain aur dunya meyahan wahan har jageh chaahen aate jaate rehte hainto phir janab daawa agar tafseer per karna hai so ye to aapkitafseer aur soch hai MOHAMMDUR RASOOLULLAH sawwne kya farmaya is ayat ke mutaliq uspe ghour dein ??ABDULLAH ibn e masood r.a se QURAN ki eik ayat ke baare me poocha kejo loug ALLAH ki raah me maare jayen inhein murda na kahobalke woh zinda hain apne RAB ke haan rizq paate hain so farmayahum ne is ayat ke baare mein RasoolALLAH saww se poochato aap saww ne farmaya shaheedon ki roohein sabz parindonke kaaghaz ke andar kandeenon me latki rehti hainjo arsh e ILAHI se latki huwi hain jannat me jahan chahtikhaati hain peeti hain urti hainSahih Muslimbohot se mufassireen ne is hadees ko apne tafseer meinpeish kiya is ayat ke saath aur ab dekhte hain kya aqal meye baat bethti hai ya phir zehen me bohot se sawaal aa jate hainye sochne se ke qabar me wese zindagi Anbiya o Auliya a.s konaseeb hai jese humen qabboor ke bahir naseeb hai1...Agar Anbiya a.s ko mout aani hi nahin hotito eik hi Nabi na aate aur ta qayamat tak wahiNabi hote doosre Nabi ki phir haajat hi nahin honi thi2...Agar Anbiya a.s qabaron me zinda hain iskazikr kahaan aaya hai ??3...Agar Aulia o Anbia a.s marte hi nahin so inheindafnaya kyun jaata ??4...Agar Anbiya o Aoliya a.s apne qabboor mein zinda hainto apni roohon ki wajah se matlab ke unki rooheinjannat me araam farma nahin hain ?? barzakh mein nahin hain ??balke 6-7 feet ke qabar ke andar wo aise zinda hainjese is dunya mein zinda the ??5...Agar woh apne qabboor mein zinda hain so inhein khaane peeneki haajat bhi hoti hogi so behesht me behesht ka rizq haidunya ke liye dunyavi rizq hai qabar waalon ko kounsa rizq milta hai ??6...Agar wo apne qabboor mein zinda hain to kitne dukhi hongenkyunke zindagi ke bawajood apne ehbaab se dost o aal se door hain ??7...Agar woh apne qabboor mein zinda hain so hum baahir walonse qabar ke andar se baat kyun nahin karte ??humen kyun nahin sunte ?? ya phir eik qabar wala doosre qabarwale se hi baat kyun nahin karta ??8...Agar Anbiya o Aulia a.s apne qaboor mein zinda hainso iska matlab huwa ke NAUZBILLAH unhein ALLAH PAKitni bari dunya ki zindagi se door kar ke 7 feetke qabar mein zindagi de kar saza yaafta kar rahe hain ??kyunke abadi zindagi me banda eik poora din eik hi kamre me guzaar deso woh tang aa jata hai so apne pyaare bandon ko ta qayamatALLAH PAK 7 feet ke andar kyunkar zinda rakhega ??aise aqaaiyd walon ke aage yeh kehna ke Anbiya a.s har jageh aate jaate nahingustakhi ke barabar hai lekin dar haqeeqat yeh sochna ke wo dunya mehain jahan chahen aayen jayen ye sochna gustakh hai wo is liye ke Anbiya a.so Aulia a.s ko ALLAH ki jannaton me bohot hi aala maqaam naseeb hota haijannat to is dunya se kaiin darja behetter hai Ibn e kaseer samet baaz mufassireenke mutabiq to ANBIYA a.s ke ijazat ke baad unke rooh e mubarak ko qabz kiya jataso kyunkar apne is dunya se wisaal per raazi hone ke baad wo lauten dunya me ??jabke jannat ki dunya behadd zabardast haiis dunya se wahan beshumar azeem nematein hainmazeed bhi bohot se aise aqwaal hain jinse saabit haike baad e wisaal dunya me nahin aata koi bhi lekin filwaqtALHAMDULILLAH wa INSHA'ALLAH jitni baaten peish keenjitne dalaiyl diye samajhne ke liye asaan hongen aur insha'ALLAHhumein in baaton ke zariye se naseehat o hidayat e haq naseeb hogiALLAH ta'ala ki jaanib se Ameen Sum Ameen .
Hummm haan ji bilkul theek kaha JAZAKALLAH khair .g veer g bilkul theek bat hy,.,,.or zinda ho na is dunyan ki bat ni hy jnat man hi wo aala mukam par hin shuhda k liy kaha gay hy k wo khuda ki rah man foot hoy hin to un ko foot shudah na kaho,.,.,
nice reply[DOUBLEPOST=1349009055][/DOUBLEPOST]سکین پیجر دیکھ لیں۔View attachment 54083View attachment 54084 [DOUBLEPOST=1348936764][/DOUBLEPOST]قاقی آپ شرح صدور بھی پڑھ لیں کیسی آج کے عالم کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ امام چلال الدین سیوطیؒ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
i wish k wo jawab day saktay ho apki post ka...Allah he hidayat day in sabko ameenحدیث کا حوالہابوداود طیالسی کی حدیث ہے، اور مسند احمد میں بھی حضرت انس کے طریقہ سے بھی روایت کیا ہےاس مضموں کی کئی ااحادیث شرح الصدور میں مرفوعاََ موجود ہیں اس کے علاوہ امام غزالیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب احیاء العلوم جلد 4 میں بھی اس مضمون کی حدیث پیش کر کے عرض اعمال پر استدلال کیا ہے۔[DOUBLEPOST=1348676354][/DOUBLEPOST]
ان سب باتوں کا جواب آپ نے دینا ہے اگر آپ کو اس حدیث پر اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی حدیث کا موجود ہیں جو عزاب قبر کے بارے میں ہیں کیا آپ اپنا عذاب قبر کے دوران روح اور جسم کا آپس میں تعلق مانتے ہیں؟
اس کے علاوہ میں نے عرابی والا واقع بھی ذکر کیا آپ نے اُس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ تسلی سے پوسٹ کر پڑھ لیں پھر ایک ایک کر کے جو دلائیل دئے ہیں جراح کریں۔
پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔
سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦
اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے
ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔
صحیح بخاری، کتاب التفسیر
ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے۔ یعنی اپنے بعد میں آنے والے علماء کی غلط تعلیمات کےدفاع میں اتنا آگے نکل گئے کہ قران و حدیث کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اور تواور اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟
سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیںکیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِقبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِخدا کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔ کسی بھی فرقے کا حصہ بننے کے لئے پہلی لازمی شق یہی ہے کہ دین کے تمام معاملات میں اپنی عقل کو استعمال کرنا بند کر دیا جائے کہ دین کے معاملات کو سمجھنا اور سمجھانا صرف چند گنے چنے اعلٰی نصب اہلِ علم کا کام ہے جنکی کسی بھی بات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔