ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی
تیرا ہر بار میرے خط کو پڑھنا اور رو دینا
میرا ہر بار لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
...
کیا تھا ہم نے کیمپس کی ندی پر اک حسین وعدہ
بھلے ہم کو پڑے مرنا محبت مر نہیں سکتی
جہاں میں جب تلک پنچھی چہکتے اڑتے پھرتے ہیں
ہے جب تک پھول کا کھلنا محبت مر نہیں سکتی
پرانے عہد کو جب زندہ کرنے کا خیال آئے
مجھے بس اتنا لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
وہ تیرا ہجر کی شب فون رکھنے سے ذرا پہلے
بہت روتے هوئے کہنا محبت مر نہیں سکتی
اگر ہم حسرتوں کی قبر میں ہی دفن ہو جائیں
تو یہ قطبوں پہ لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
پرانے رابطوں کو پھر نئے وعدے کی خواہش ہے
ذرا اک بار پھر کہنا محبت مر نہیں سکتی
گئے لمحات فرصت کے کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں
وہ پہروں ہاتھ پہ لکھنا محبت مر نہیں سکتی