٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے
اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
[/quote]
جناب نبی کریم ﷺ سے فیض یافتہ حضرات ہر ایک اپنے مقام پر ہدایت کا روشن آفتاب ہیں۔ یہ بات کسی کے مخفی نہیں کہ جیسا فیض آپ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ کو نصیب ہوا بحیثیت مجموعی کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا، اور انہی وجودِ مسعود سے اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا
ترجمہ
وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے نیک کام۔ البتہ (آپ کے بعد) حاکم کردے گا اُن کو مُلک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو، اور جمادے گا اُن کے لئے دین ان کا جو پسند کردیا ان کے واسطے، اور دے گا اُن کو اُن کے ڈر کے بدلے امن، میری بندگی کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو کوئی ناشکری کریگا اس کے بعد، سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
(النور، رکوع 7)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام ی بہت بڑی فضیلت اور منقبت ثابت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کو معیار حق گردانتے ہوئے ہمیں اُن کی اتباع اور پیروی کرنے کا حکم دیا ہے،
ترجمہ
یعنی جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ سو تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے خلفائے راشدیںؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو۔ اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔
(ابن جامہ، ابوداؤد جدل 2، مسند احمد جلد 4)
حضرات خلفائے راشدینؓ نے درحقیقت آپ ہی کی سنت پر عمل کیا، اور ان کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یا اسلئے کہ انہوں نے خود قیاس اور استنباط کر کے اس کو اختیار کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے جو کام اپنے قیاس استنباط سے سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ بھی سنت ہے کیوںکہ حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے تحت اُس پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے بھی جلیل القدر بزرگان دین نے یہ ہی سمجھا ہے کہ صحابہ کرام رضوان و اجمعین نے جو کام اپنے قیاس و اجتہاد سے صادر فرمایا ہو وہ بھی سنت کے موافق ہے۔
جیسے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے شرابی کو چالیس چالیس کوڑے سزادی۔ اس سے زیادہ ان سے ثابت نہیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزادی ہے، یہ بھی سنت ہے۔ چنانچہ علیؓ فرماتے ۃٰن کہ
جلد النبی صل اللہ علیہ وسلم اربعین و ابو بکرؓ اربعین و عمرؓ نمانین و کل سنۃ
(مسلم جلد 2، ابوداؤد جلد2، ابن ماجہ)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ اور ھضرت ابو بکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزادی اور حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، اور کہنے والے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنت اور بدعت، اتباع و تقلید کے مفہوم کو خوب اچھی طرح جانتے بھی ہیں وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عمل کو سنت کہتے ہیں جو بظاہر جناب نبی کریم ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان نبی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ وتفترق امتی علیٰ ثلاث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالدا من ھی یا رسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی
(ترمذی جلد2، مستدرک جلد1، مشکوۃ جلد 1)
ترجمہ:
کہ بنی اسرائیل پہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور میری اُمت تہتر فرقوں میں منقسم ہوگی، سب کے سب فرقے دوزخ میں جائیں گے مگر صرف ایک فرقہ۔ لوگوں نے آُ سے پوچھا کہ وہ کونسا فرقہ ہوگا۔ فرمایا وہ فرقہ ہے جس نے وہ کام کئے جو میں نے اور میرے صحابہؓ نے کئے ہیں۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہؓ کے اقوال میں اول تو رفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے، اور اگر کہیں فہم کا دخل ہو تو بھی رسول ﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں، کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ بات اور طرزِ استدلال کو دیکھتے تھے۔ اور آپﷺ کے کنایہ و اشارے سے خوب سمجھتے تھے، اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے۔ اور بعد کے لوگ ان باتوں سے محروم ہیں.
اس بات میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف آجائے تو اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات سب کو مسلم ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول حجت ہے ہم تو قرآن و حدیث کو صحابہ، ائمہ مجتہدین، مفسرین، محدثین و فقہاء کی رہنمائی میں سمجھتے ہیں۔
جس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث پر عمل علماء فقہا و ماہرین کی رہنمائی میں کریں یہ اپنے نفس کے پوجاری بن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ عقلمند فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔
بض لوگ صحابہ کرام کے اختلافات کو ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو صحابی نے کہا کے نبیﷺ کا قول قبول کرو دوسرے کا چھوڑ دو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ تو ہمارے عمل کو ثابت کرتیں ہیں کہ اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی ہوا اور ایسا ہی اختلاف ہمارے ائمہ کے درمیان بھی ہوا یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے زحمت نہیں۔
اس سے معلوم پڑتا ہے کہ جو لوگ ائمہ کو چھوڑتے ہیں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ صحابہ کو بھی چھوڑ جاتے ۔
تو یہ ایک وسوسہ ہے۔ جو سادہ لوح مسلمانوں کے متاثر کرنے کے لئے گھڑا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کی سات قرآتیں ہیں، حدیث میں بھی محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، راوی میں بھی محدثین کا اختلاف ہے کوئی ایک کے نزدیک ثقہ ہے تو دوسرے کے نزدیک ثقہ نہیں ہے،محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع ہوا ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ و فقہا کو چھوڑنا ہے تو سب کچھ چھوٹ جائے گا ، تو تو اب حدیث بھی گئی اور قرآن بھی اورصحابہ کرام کو بھی چھوڑناپڑے گا کیونکہ ان کے مابین بھی فروعی مسائل میں اختلاف موجود ہے ، اب فقہ بھی گئ قرآن وحدیث بھی اورصحابہ بھی توباقی کیا بچا ؟ سوائے ابلیس کے اب جو بھی اتباع کرے گا وہ تو صرف ابلیس کی ہی اتباع ہوسکتی ہے۔
لطیفہ تو یہ ہے عام آدمی کو تو کہتے ہیں کہ ائمہ و صحابہ میں اختلاف ہے تم اہل حدیث میں شامل ہو جاو اب ایک عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجھے جس فرقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان(غیر مقلدین) میں آپس میں جو عقائید و نظریات کی کتنی خانہ جنگی ہے اگر وہ اس پر مطلع ہو جائےتو اس کی اتباع و تقلید کو دور کی بات ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اگر کسی کو یقین نہ ائے تو مطالبہ کر کے دیکھ لے پھر ان کے عقائید و اختلافات بھی ذکر کر دوں گا۔ انشااللہ
الحاصل ہم نے احادیث پیش کر دیں ہیں ایک نہیں بلکہ کئی اب مذید احادیث بھی سن لیں
حضرت عبداللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں
عن النبی سلی اللہ علیہ وسلم، قال خیر الناس قرنی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یلو فھم تم یجئ اقوام تسبق شھادۃ احد ھم یمینہ و یمینہ شھادتہ
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں۔ پھر ان کے بعد والے(تابعین) اور پھر ان کے بعد والے(تباتعبین)۔ پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادت قسم سے، اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرلے گی۔
حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا
اوصیکم با صحابی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یا و فھم ثم یفشو الکذب حتی یحلف الرجل ولا یستحلف و یشھد ولا یستشھد فمن اواد منکم بجبو حۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ
(مسند ابو داؤد، مستدرک جلد 1)
ترجمہ:
میں تمہیں اپنے صحابہؓ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ اُن کے نقشِ قدم پر چلنا) پھر ان کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر اُن کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گ یہانتک کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اُٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے۔ سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے۔
غیر مقلدین کے گزارش ہے کہ کم سے کم حضور ﷺ کی اس وصیت کا ہی خیال کر لیں اگر حضور ﷺ نے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا کہا ہے تو ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کی تعلیمات اور اُن کے نقشِ قدم پر بھی چلنےکی وصیت بھی کی ہے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ
سال رجل النبی صل اللہ علیہ وسلم ای الناس خیر قال القرن الذی انا فیہ ثم الثانی ثم الثالث
(مسلم جلد 2)
ترجمہ
ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ وہ قرن بہتر ہے جس میں میں ہوں پھر دوسرا (تابعین )قرن بہتر ہے اور پھر تیسرا (تبع تابعین کا قرن بہتر ہے)
ان روایات سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ خیرالقرون کے بعد جو لوگ پیشا ہوں گے، اُن میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیرالقرون میں تھی اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا لیحاظہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعمل بھی حجت ہے صرف حدیث کا رونا رونے والوں کو خوب آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کیا فرما رہے ہیں اور یہ غیر مقلد ہو کر بھی اپنے نفس کی تقلید کر رہے ہیں۔
منصف مزاج کے لئے اتنا کافی ہے اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو آگے مزید دلائیل دئے جائیں کے انشاللہ
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہسیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
عرض ہے کہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدَؒ اور امام اعظم ابو حنفیہ ؒیہ سب ہمارے اکابرین ہیں لیکن دلائیل کی روشنی میں اگر کسی سے اختلاف ہو جائے تو ہم اس کو رحمت سمجھتے ہیں زحمت نہیں۔ اور نہایت آدب سے ان کے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر دلیل کی بنیاد پر صحابی نے صحابی سے اختلاف کرلیا تو آپ کو کیوں اتنا بُرا لگ رہا ہے۔
دراصل حدیث میں موجود علت پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ حدیث تو ایک ہی ہو لیکن اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے اختلاف ہوجاتا ہے لیکن ایسا اختلاف جیسا کے پہلے عرض کردیا گیا ہے باعث خیر ہوتا ہے
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے
تو آپ ہی جواب دیں نا کہ کیا حضرت عمرؓ نے اللہ کو چھوڑ کر کن عالموں کو درویش مان لیا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟
نوٹ
بشری تقاضے کے تحت اگر لکھائی میں کوئی غلطی ہو تو معذرت