کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
کیا میں نے کبھی کہا ہے آپ سے کہ میں مقللد ہوں؟؟؟ کیوں میں تو شروع سے ہی تقلید کے خلاف بولتی آئ ہوں

اگر کوئی حنفی ہے تو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہے اگر شافعی ہے تو وہ امام شافعی کا مقللد ہے اگر حنبلی ہے امام حنبل کا مقللد ہے، اگر مالکی ہے تو وہ امام مالک کا مقللد ہے اور یہ چاروں حق پر ہیں بقول آپ کے، لیکن اگر کوئی امام الانبیا کی اتباع کرنے والا ہے تو وہ غیر مقللد ہے اور آپ کے نزدیک وہ گمراہ ہے ، اب اگر آپکی نظر میں قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والا غیر مقللد کوئی فرقہ ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے بھائی

.آپ نے جب جب ہمیں کسی بھی عالم کی غلطی کے بارے میں بتایا ہم نے ہر دفعہ آپ سے یہی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو اگر وہ قرآن اورحدیث کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے ردد کر دیا جاۓ
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا سورہ الاحزاب ٣٦
اچھا میرے بھائی مجھے یہ بتایے کہ اگر کوئی عالم قرآن اور حدیث کے مطابق بات کرتا ہے اور ہم اس کی بات کو پیش کرتے ہیں تو کیا یہ اس کی تقلید ہے؟؟؟ تقلید تو کسی کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا نام ہے.. قرآن اور حدیث کے دلائل سے کی گئی بات کو ماننا یا اسکا حوالہ دینا تقلید نہیں ہے.بلکہ قرآن اور حدیث کی ہی اتباع ہے. کہ جس طرح آپکا کوئی عالم آپکو امام ابو حنیفہ کا قول بتایگا اور آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ یہ ہر گز نہیں مانیں گے کہ یہ اس عالم کی تقلید ہے بلکہ آپ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کا مقللد ہی کہیں گے، اسی طرح اگر کوئی دلائل سے بات کرتا ہے تو اسکی بات کو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے نہ کہ اس عالم کی.
مسلمان ہونے کے لیے صرف زبان سے کہ دینا کے قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے رسول ہیں سچا مسلمان تو وہ ہے جو دل سے تسلیم کرے کہ قرآن مجید الله کا کلام ہے محمّد الله کے بندے اور رسول ہیں، اور الله اور اس کے رسول کے آگے کسی کا فرمان قابل قبول نہیں ہے، جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ الحشر ٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے
اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟


جزاکم اللہ خيرا واحسن الجزاء في الدنيا و الآخرا
 

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے
اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
[/quote]
جناب نبی کریم ﷺ سے فیض یافتہ حضرات ہر ایک اپنے مقام پر ہدایت کا روشن آفتاب ہیں۔ یہ بات کسی کے مخفی نہیں کہ جیسا فیض آپ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ کو نصیب ہوا بحیثیت مجموعی کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا، اور انہی وجودِ مسعود سے اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا
ترجمہ
وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے نیک کام۔ البتہ (آپ کے بعد) حاکم کردے گا اُن کو مُلک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو، اور جمادے گا اُن کے لئے دین ان کا جو پسند کردیا ان کے واسطے، اور دے گا اُن کو اُن کے ڈر کے بدلے امن، میری بندگی کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو کوئی ناشکری کریگا اس کے بعد، سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
(النور، رکوع 7)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام ی بہت بڑی فضیلت اور منقبت ثابت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کو معیار حق گردانتے ہوئے ہمیں اُن کی اتباع اور پیروی کرنے کا حکم دیا ہے،
ترجمہ
یعنی جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ سو تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے خلفائے راشدیںؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو۔ اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔
(ابن جامہ، ابوداؤد جدل 2، مسند احمد جلد 4)
حضرات خلفائے راشدینؓ نے درحقیقت آپ ہی کی سنت پر عمل کیا، اور ان کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یا اسلئے کہ انہوں نے خود قیاس اور استنباط کر کے اس کو اختیار کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے جو کام اپنے قیاس استنباط سے سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ بھی سنت ہے کیوںکہ حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے تحت اُس پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے بھی جلیل القدر بزرگان دین نے یہ ہی سمجھا ہے کہ صحابہ کرام رضوان و اجمعین نے جو کام اپنے قیاس و اجتہاد سے صادر فرمایا ہو وہ بھی سنت کے موافق ہے۔
جیسے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے شرابی کو چالیس چالیس کوڑے سزادی۔ اس سے زیادہ ان سے ثابت نہیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزادی ہے، یہ بھی سنت ہے۔ چنانچہ علیؓ فرماتے ۃٰن کہ
جلد النبی صل اللہ علیہ وسلم اربعین و ابو بکرؓ اربعین و عمرؓ نمانین و کل سنۃ
(مسلم جلد 2، ابوداؤد جلد2، ابن ماجہ)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ اور ھضرت ابو بکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزادی اور حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، اور کہنے والے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنت اور بدعت، اتباع و تقلید کے مفہوم کو خوب اچھی طرح جانتے بھی ہیں وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عمل کو سنت کہتے ہیں جو بظاہر جناب نبی کریم ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان نبی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ وتفترق امتی علیٰ ثلاث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالدا من ھی یا رسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی
(ترمذی جلد2، مستدرک جلد1، مشکوۃ جلد 1)
ترجمہ:
کہ بنی اسرائیل پہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور میری اُمت تہتر فرقوں میں منقسم ہوگی، سب کے سب فرقے دوزخ میں جائیں گے مگر صرف ایک فرقہ۔ لوگوں نے آُ سے پوچھا کہ وہ کونسا فرقہ ہوگا۔ فرمایا وہ فرقہ ہے جس نے وہ کام کئے جو میں نے اور میرے صحابہؓ نے کئے ہیں۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہؓ کے اقوال میں اول تو رفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے، اور اگر کہیں فہم کا دخل ہو تو بھی رسول ﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں، کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ بات اور طرزِ استدلال کو دیکھتے تھے۔ اور آپﷺ کے کنایہ و اشارے سے خوب سمجھتے تھے، اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے۔ اور بعد کے لوگ ان باتوں سے محروم ہیں.
اس بات میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف آجائے تو اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات سب کو مسلم ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول حجت ہے ہم تو قرآن و حدیث کو صحابہ، ائمہ مجتہدین، مفسرین، محدثین و فقہاء کی رہنمائی میں سمجھتے ہیں۔
جس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث پر عمل علماء فقہا و ماہرین کی رہنمائی میں کریں یہ اپنے نفس کے پوجاری بن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ عقلمند فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔
بض لوگ صحابہ کرام کے اختلافات کو ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو صحابی نے کہا کے نبیﷺ کا قول قبول کرو دوسرے کا چھوڑ دو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ تو ہمارے عمل کو ثابت کرتیں ہیں کہ اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی ہوا اور ایسا ہی اختلاف ہمارے ائمہ کے درمیان بھی ہوا یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے زحمت نہیں۔
اس سے معلوم پڑتا ہے کہ جو لوگ ائمہ کو چھوڑتے ہیں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ صحابہ کو بھی چھوڑ جاتے ۔
تو یہ ایک وسوسہ ہے۔ جو سادہ لوح مسلمانوں کے متاثر کرنے کے لئے گھڑا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کی سات قرآتیں ہیں، حدیث میں بھی محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، راوی میں بھی محدثین کا اختلاف ہے کوئی ایک کے نزدیک ثقہ ہے تو دوسرے کے نزدیک ثقہ نہیں ہے،محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع ہوا ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ و فقہا کو چھوڑنا ہے تو سب کچھ چھوٹ جائے گا ، تو تو اب حدیث بھی گئی اور قرآن بھی اورصحابہ کرام کو بھی چھوڑناپڑے گا کیونکہ ان کے مابین بھی فروعی مسائل میں اختلاف موجود ہے ، اب فقہ بھی گئ قرآن وحدیث بھی اورصحابہ بھی توباقی کیا بچا ؟ سوائے ابلیس کے اب جو بھی اتباع کرے گا وہ تو صرف ابلیس کی ہی اتباع ہوسکتی ہے۔
لطیفہ تو یہ ہے عام آدمی کو تو کہتے ہیں کہ ائمہ و صحابہ میں اختلاف ہے تم اہل حدیث میں شامل ہو جاو اب ایک عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجھے جس فرقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان(غیر مقلدین) میں آپس میں جو عقائید و نظریات کی کتنی خانہ جنگی ہے اگر وہ اس پر مطلع ہو جائےتو اس کی اتباع و تقلید کو دور کی بات ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اگر کسی کو یقین نہ ائے تو مطالبہ کر کے دیکھ لے پھر ان کے عقائید و اختلافات بھی ذکر کر دوں گا۔ انشااللہ
الحاصل ہم نے احادیث پیش کر دیں ہیں ایک نہیں بلکہ کئی اب مذید احادیث بھی سن لیں
حضرت عبداللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں
عن النبی سلی اللہ علیہ وسلم، قال خیر الناس قرنی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یلو فھم تم یجئ اقوام تسبق شھادۃ احد ھم یمینہ و یمینہ شھادتہ
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں۔ پھر ان کے بعد والے(تابعین) اور پھر ان کے بعد والے(تباتعبین)۔ پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادت قسم سے، اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرلے گی۔
حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا
اوصیکم با صحابی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یا و فھم ثم یفشو الکذب حتی یحلف الرجل ولا یستحلف و یشھد ولا یستشھد فمن اواد منکم بجبو حۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ
(مسند ابو داؤد، مستدرک جلد 1)
ترجمہ:
میں تمہیں اپنے صحابہؓ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ اُن کے نقشِ قدم پر چلنا) پھر ان کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر اُن کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گ یہانتک کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اُٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے۔ سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے۔
غیر مقلدین کے گزارش ہے کہ کم سے کم حضور ﷺ کی اس وصیت کا ہی خیال کر لیں اگر حضور ﷺ نے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا کہا ہے تو ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کی تعلیمات اور اُن کے نقشِ قدم پر بھی چلنےکی وصیت بھی کی ہے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ
سال رجل النبی صل اللہ علیہ وسلم ای الناس خیر قال القرن الذی انا فیہ ثم الثانی ثم الثالث
(مسلم جلد 2)
ترجمہ
ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ وہ قرن بہتر ہے جس میں میں ہوں پھر دوسرا (تابعین )قرن بہتر ہے اور پھر تیسرا (تبع تابعین کا قرن بہتر ہے)
ان روایات سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ خیرالقرون کے بعد جو لوگ پیشا ہوں گے، اُن میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیرالقرون میں تھی اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا لیحاظہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعمل بھی حجت ہے صرف حدیث کا رونا رونے والوں کو خوب آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کیا فرما رہے ہیں اور یہ غیر مقلد ہو کر بھی اپنے نفس کی تقلید کر رہے ہیں۔
منصف مزاج کے لئے اتنا کافی ہے اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو آگے مزید دلائیل دئے جائیں کے انشاللہ
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہسیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریم کی اتباع؟؟؟
عرض ہے کہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدَؒ اور امام اعظم ابو حنفیہ ؒیہ سب ہمارے اکابرین ہیں لیکن دلائیل کی روشنی میں اگر کسی سے اختلاف ہو جائے تو ہم اس کو رحمت سمجھتے ہیں زحمت نہیں۔ اور نہایت آدب سے ان کے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر دلیل کی بنیاد پر صحابی نے صحابی سے اختلاف کرلیا تو آپ کو کیوں اتنا بُرا لگ رہا ہے۔
دراصل حدیث میں موجود علت پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ حدیث تو ایک ہی ہو لیکن اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے اختلاف ہوجاتا ہے لیکن ایسا اختلاف جیسا کے پہلے عرض کردیا گیا ہے باعث خیر ہوتا ہے
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے
تو آپ ہی جواب دیں نا کہ کیا حضرت عمرؓ نے اللہ کو چھوڑ کر کن عالموں کو درویش مان لیا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟
نوٹ​
بشری تقاضے کے تحت اگر لکھائی میں کوئی غلطی ہو تو معذرت​
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
jazakAllah khair...umda andaz samjanay ka:)
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
٧
[DOUBLEPOST=1349166180][/DOUBLEPOST]
آپ کی بیان کی گئی حدیث نمبر ١ میں ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدینؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں
اب آپ مجھے یہ بتایے کہ ہدایت یافتہ کسے کہا جاتا ہے؟؟؟
یہاں وہی بات آ جاتی ہے کے جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ:
کسی بھی انسان کی بات جو کہ دلائل کے ساتھ ہو اسکو تسلیم کرنا سنّت کی اتباع ہے اس شخص کی تقلید نہیں.
قرآن اور حدیث میں جہاں بھی لفظ آیا ہے اتباع اور اطاعت کا لفظ ہے... اور شریعت محمدیہ میں لفظ ’’تقلید‘‘ کسی بھی معنی میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے
اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول کی اتباع کا حکم قرآن میں ہے.... شریعت محمدیہ نے کسی بھی شخصیت کی تقلید کا حکم نہیں دیا
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہ
سیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریمﷺ کی اتباع؟؟؟
جناب نبی کریم ﷺ سے فیض یافتہ حضرات ہر ایک اپنے مقام پر ہدایت کا روشن آفتاب ہیں۔ یہ بات کسی کے مخفی نہیں کہ جیسا فیض آپ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ کو نصیب ہوا بحیثیت مجموعی کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا، اور انہی وجودِ مسعود سے اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا
ترجمہ
وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے نیک کام۔ البتہ (آپ کے بعد) حاکم کردے گا اُن کو مُلک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو، اور جمادے گا اُن کے لئے دین ان کا جو پسند کردیا ان کے واسطے، اور دے گا اُن کو اُن کے ڈر کے بدلے امن، میری بندگی کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو کوئی ناشکری کریگا اس کے بعد، سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
(النور، رکوع 7)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام ی بہت بڑی فضیلت اور منقبت ثابت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کو معیار حق گردانتے ہوئے ہمیں اُن کی اتباع اور پیروی کرنے کا حکم دیا ہے،
ترجمہ
یعنی جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ سو تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے خلفائے راشدیںؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو۔ اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔
(ابن جامہ، ابوداؤد جدل 2، مسند احمد جلد 4)
حضرات خلفائے راشدینؓ نے درحقیقت آپ ہی کی سنت پر عمل کیا، اور ان کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یا اسلئے کہ انہوں نے خود قیاس اور استنباط کر کے اس کو اختیار کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے جو کام اپنے قیاس استنباط سے سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ بھی سنت ہے کیوںکہ حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے تحت اُس پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے بھی جلیل القدر بزرگان دین نے یہ ہی سمجھا ہے کہ صحابہ کرام رضوان و اجمعین نے جو کام اپنے قیاس و اجتہاد سے صادر فرمایا ہو وہ بھی سنت کے موافق ہے۔
جیسے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے شرابی کو چالیس چالیس کوڑے سزادی۔ اس سے زیادہ ان سے ثابت نہیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزادی ہے، یہ بھی سنت ہے۔ چنانچہ علیؓ فرماتے ۃٰن کہ
جلد النبی صل اللہ علیہ وسلم اربعین و ابو بکرؓ اربعین و عمرؓ نمانین و کل سنۃ
(مسلم جلد 2، ابوداؤد جلد2، ابن ماجہ)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ اور ھضرت ابو بکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزادی اور حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، اور کہنے والے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنت اور بدعت، اتباع و تقلید کے مفہوم کو خوب اچھی طرح جانتے بھی ہیں وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عمل کو سنت کہتے ہیں جو بظاہر جناب نبی کریم ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان نبی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ وتفترق امتی علیٰ ثلاث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالدا من ھی یا رسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی
(ترمذی جلد2، مستدرک جلد1، مشکوۃ جلد 1)
ترجمہ:
کہ بنی اسرائیل پہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور میری اُمت تہتر فرقوں میں منقسم ہوگی، سب کے سب فرقے دوزخ میں جائیں گے مگر صرف ایک فرقہ۔ لوگوں نے آُ سے پوچھا کہ وہ کونسا فرقہ ہوگا۔ فرمایا وہ فرقہ ہے جس نے وہ کام کئے جو میں نے اور میرے صحابہؓ نے کئے ہیں۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہؓ کے اقوال میں اول تو رفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے، اور اگر کہیں فہم کا دخل ہو تو بھی رسول ﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں، کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ بات اور طرزِ استدلال کو دیکھتے تھے۔ اور آپﷺ کے کنایہ و اشارے سے خوب سمجھتے تھے، اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے۔ اور بعد کے لوگ ان باتوں سے محروم ہیں.
اس بات میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف آجائے تو اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات سب کو مسلم ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول حجت ہے ہم تو قرآن و حدیث کو صحابہ، ائمہ مجتہدین، مفسرین، محدثین و فقہاء کی رہنمائی میں سمجھتے ہیں۔
جس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث پر عمل علماء فقہا و ماہرین کی رہنمائی میں کریں یہ اپنے نفس کے پوجاری بن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ عقلمند فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔
بض لوگ صحابہ کرام کے اختلافات کو ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو صحابی نے کہا کے نبیﷺ کا قول قبول کرو دوسرے کا چھوڑ دو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ تو ہمارے عمل کو ثابت کرتیں ہیں کہ اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی ہوا اور ایسا ہی اختلاف ہمارے ائمہ کے درمیان بھی ہوا یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے زحمت نہیں۔
اس سے معلوم پڑتا ہے کہ جو لوگ ائمہ کو چھوڑتے ہیں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ صحابہ کو بھی چھوڑ جاتے ۔
تو یہ ایک وسوسہ ہے۔ جو سادہ لوح مسلمانوں کے متاثر کرنے کے لئے گھڑا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کی سات قرآتیں ہیں، حدیث میں بھی محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، راوی میں بھی محدثین کا اختلاف ہے کوئی ایک کے نزدیک ثقہ ہے تو دوسرے کے نزدیک ثقہ نہیں ہے،محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع ہوا ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ و فقہا کو چھوڑنا ہے تو سب کچھ چھوٹ جائے گا ، تو تو اب حدیث بھی گئی اور قرآن بھی اورصحابہ کرام کو بھی چھوڑناپڑے گا کیونکہ ان کے مابین بھی فروعی مسائل میں اختلاف موجود ہے ، اب فقہ بھی گئ قرآن وحدیث بھی اورصحابہ بھی توباقی کیا بچا ؟ سوائے ابلیس کے اب جو بھی اتباع کرے گا وہ تو صرف ابلیس کی ہی اتباع ہوسکتی ہے۔
لطیفہ تو یہ ہے عام آدمی کو تو کہتے ہیں کہ ائمہ و صحابہ میں اختلاف ہے تم اہل حدیث میں شامل ہو جاو اب ایک عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجھے جس فرقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان(غیر مقلدین) میں آپس میں جو عقائید و نظریات کی کتنی خانہ جنگی ہے اگر وہ اس پر مطلع ہو جائےتو اس کی اتباع و تقلید کو دور کی بات ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اگر کسی کو یقین نہ ائے تو مطالبہ کر کے دیکھ لے پھر ان کے عقائید و اختلافات بھی ذکر کر دوں گا۔ انشااللہ
الحاصل ہم نے احادیث پیش کر دیں ہیں ایک نہیں بلکہ کئی اب مذید احادیث بھی سن لیں
حضرت عبداللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں
عن النبی سلی اللہ علیہ وسلم، قال خیر الناس قرنی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یلو فھم تم یجئ اقوام تسبق شھادۃ احد ھم یمینہ و یمینہ شھادتہ
(بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں۔ پھر ان کے بعد والے(تابعین) اور پھر ان کے بعد والے(تباتعبین)۔ پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادت قسم سے، اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرلے گی۔
حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا
اوصیکم با صحابی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یا و فھم ثم یفشو الکذب حتی یحلف الرجل ولا یستحلف و یشھد ولا یستشھد فمن اواد منکم بجبو حۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ
(مسند ابو داؤد، مستدرک جلد 1)
ترجمہ:
میں تمہیں اپنے صحابہؓ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ اُن کے نقشِ قدم پر چلنا) پھر ان کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر اُن کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گ یہانتک کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اُٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے۔ سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے۔
غیر مقلدین کے گزارش ہے کہ کم سے کم حضور ﷺ کی اس وصیت کا ہی خیال کر لیں اگر حضور ﷺ نے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا کہا ہے تو ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کی تعلیمات اور اُن کے نقشِ قدم پر بھی چلنےکی وصیت بھی کی ہے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ
سال رجل النبی صل اللہ علیہ وسلم ای الناس خیر قال القرن الذی انا فیہ ثم الثانی ثم الثالث
(مسلم جلد 2)
ترجمہ
ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ وہ قرن بہتر ہے جس میں میں ہوں پھر دوسرا (تابعین )قرن بہتر ہے اور پھر تیسرا (تبع تابعین کا قرن بہتر ہے)
ان روایات سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ خیرالقرون کے بعد جو لوگ پیشا ہوں گے، اُن میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیرالقرون میں تھی اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا لیحاظہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعمل بھی حجت ہے صرف حدیث کا رونا رونے والوں کو خوب آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کیا فرما رہے ہیں اور یہ غیر مقلد ہو کر بھی اپنے نفس کی تقلید کر رہے ہیں۔
منصف مزاج کے لئے اتنا کافی ہے اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو آگے مزید دلائیل دئے جائیں کے انشاللہ
آپ لولی آل ٹائم کی بیان کردہ حدیث کو پڑھیے اور بتایں کہسیدنا عمر بن الخطاب نے ایک جلیل القدر صحابی اور اپنے والد کی گستاخی کی ہے یا نبی کریم کی اتباع؟؟؟
عرض ہے کہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدَؒ اور امام اعظم ابو حنفیہ ؒیہ سب ہمارے اکابرین ہیں لیکن دلائیل کی روشنی میں اگر کسی سے اختلاف ہو جائے تو ہم اس کو رحمت سمجھتے ہیں زحمت نہیں۔ اور نہایت آدب سے ان کے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر دلیل کی بنیاد پر صحابی نے صحابی سے اختلاف کرلیا تو آپ کو کیوں اتنا بُرا لگ رہا ہے۔
دراصل حدیث میں موجود علت پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ حدیث تو ایک ہی ہو لیکن اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے اختلاف ہوجاتا ہے لیکن ایسا اختلاف جیسا کے پہلے عرض کردیا گیا ہے باعث خیر ہوتا ہے
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے
تو آپ ہی جواب دیں نا کہ کیا حضرت عمرؓ نے اللہ کو چھوڑ کر کن عالموں کو درویش مان لیا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟
نوٹ​
بشری تقاضے کے تحت اگر لکھائی میں کوئی غلطی ہو تو معذرت​
[/quote]



جزاکم اللہ خيرا
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

*Muslim*

TM Star
Apr 15, 2012
3,863
4,567
513
saudia
حدیث
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
اگر کسی نیک و متقی شخص کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف آجائے تو ؟
تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا حکم دیا ہے اور کسی کی قربانیاں اور عبادات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اس کی بات کو لے لیا جائے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا نسخہ لیکر آئے اور کہا اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا تو حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا گم کریں تجھ کو گم کرنیوالیاں!کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتا !تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ‘ میں اللہ کے رب ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و تر کتمونی لضللتم عن سوا ءالسبیل ولو کان موسی حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی ۔(مشکوة)
”اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے اگر موسیٰ علیہ السلام تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو میری ہی پیر وی کرتے “۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بات کو لے لیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو یہ گمراہی ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ عیسائی تھے وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ جب اس آیت پر پہنچے ۔اتخذوااحبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ ۔( سورة التوبہ آیت 31)۔”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے“ ۔
تو عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہم انکی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !تمہارے علماءاوردرویش جس چیزکو حرام کر دیتے حالانکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہوتا تو کیاتم اسے حرام نہیں جانتے تھے اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہوتا لیکن وہ حلال کر دیتے تو کیا تم اسے حلال نہیں جانتے تھے ؟
میں (عدی) نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا یہی ان کی عبادت ہے ۔(ترمذی)۔
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
میں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران
(حدیث "حسن" ہے)
وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

جزاکم اللہ خيرا واحسن الجزاء في الدنيا و الآخرا
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
جلد النبی صل اللہ علیہ وسلم اربعین و ابو بکرؓ اربعین و عمرؓ نمانین و کل سنۃ
(مسلم جلد 2، ابوداؤد جلد2، ابن ماجہ)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ اور ھضرت ابو بکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزادی اور حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، اور کہنے والے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنت اور بدعت، اتباع و تقلید کے مفہوم کو خوب اچھی طرح جانتے بھی ہیں وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عمل کو سنت کہتے ہیں جو بظاہر جناب نبی کریم ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے۔






ذیل میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال دئے درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟
اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیوں نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟:

١: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک امام کے پیچھے جہر وسر دونوں حالتوں میں فاتحہ کی قرات کی جائے گی۔
امام حاكم رحمه الله (المتوفى:405)نے کہا:
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا حَفْصٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ جَوَّابٍ التَّيْمِيِّ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: " اقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قُلْتُ: وَإِنْ كُنْتَ أَنْتَ؟ قَالَ: «وَإِنْ كُنْتُ أَنَا» ، قُلْتُ: وَإِنْ جَهَرْتَ؟ قَالَ: «وَإِنْ جَهَرْتُ» [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 365]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى:385)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ زَكَرِيَّا , ثنا أَبُو كُرَيْبٍ , ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , عَنِ الشَّيْبَانِيِّ , عَنْ جَوَّابٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ , قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ , فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ , قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ كُنْتَ أَنْتَ؟ , قَالَ: «وَإِنْ كُنْتُ أَنَا» , قُلْتُ: وَإِنْ جَهَرْتَ؟ , قَالَ: «وَإِنْ جَهَرْتُ» . هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ [سنن الدارقطني: 1/ 317]۔

٢: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورۃ الحج میں سجدے ہیں۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صُعَيْرٍ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ «فَقَرَأَ بِالْحَجِّ، فَسَجَدَ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 1/ 373]

٣: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب نہیں۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ التَّيْمِيِّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الْجُمُعَةُ الْقَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ [صحيح البخاري: 2/ 504]۔

٤: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا چاہئے۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179)نے کہا:
عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ: " إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ. فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ. وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ، ثُمَّ كَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّهْرَ، إِذَا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا، إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ [ص:7] مِثْلَهُ. وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ ". وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 6]۔

٥: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل سایہ کے بعد شروع ہوجاتاہے۔
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى:319)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَسْلَمَ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّ وَقْتَ الظُّهْرِ إِذَا كَانَ الظِّلُّ ذِرَاعًا إِلَى أَنْ يَسْتَوِيَ أَحَدُكُمْ بِظِلِّهِ[الأوسط لابن المنذر: 2/ 328]۔

٦: عمر فارق رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَمَتَّعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
[صحيح البخاري: 4/ 78]

٧: عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ام ولد لونڈی کی خرید وفروخت سے منع کیا۔
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «بِعْنَا أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ نَهَانَا فَانْتَهَيْنَا»[سنن أبي داود: 2/ 421]۔

٨: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مفقودالخبر شوہر کی بیوی چارسال انتظارکرے گی۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے کہا:
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا فَلَمْ تَدْرِ أَيْنَ هُوَ؟ فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ثُمَّ تَحِلُّ»[موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 575]۔

امام سعید بن منصور رحمه الله (المتوفى:227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا هُشَيْمٌ، قَالَ: أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: «تَرَبَّصُ امْرَأَةُ الْمَفْقُودِ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ عِدَّةَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَتَزَوَّجُ إِنْ شَاءَتْ» .[سنن سعيد بن منصور (1/ 449)]۔

٩:عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مروجہ نکاح حلالہ میں فریقین کے لئے رجم کی سزاء ہے۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211) نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔

امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ»[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔

١٠: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک بغیر ولی کے شادی شدہ جوڑے پر کوڑے لگائے جائیں گے۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227):
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ بْنَ خَالِدٍ يَقُولُ: «جَمَعَتِ الطَّرِيقُ رَكْبًا، فَوَلَّتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ أَمْرَهَا رَجُلًا، فَزَوَّجَهَا، فَرُفِعُوا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا» [سنن سعيد بن منصور: 1/ 175]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى:385) نے کہا:
نا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , نا رَوْحٌ , نا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ , عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ , قَالَ: جَمَعَتِ الطَّرِيقُ رَكْبًا فَجَعَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ ثَيِّبٌ أَمْرَهَا بِيَدِ رَجُلٍ غَيْرِ وَلِيٍّ فَأَنْكَحَهَا فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ «فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ وَرَدَّ نِكَاحَهَا»[سنن الدارقطني: 3/ 225]۔

١١: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک حالت احرام میں نکاح ممنوع ہے۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے کہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ طَرِيفًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَهُوَ مُحْرِمٌ «فَرَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِكَاحَهُ»[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 349]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي , ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ , أنبأ الشَّافِعِيُّ , أنبأ مَالِكٌ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ , عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ الْمُرِّيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ طَرِيفًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَهُوَ مُحْرِمٌ فَرَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نِكَاحَهُ [السنن الكبرى للبيهقي: 5/ 66]۔

١٢: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک غلام اپنی بیوی کو صرف دو طلاق دے سکتا ہے۔
امام شافعي رحمه الله (المتوفى: 204) نے کہا:
أخبرنا سُفْيَانُ عن محمدِ بنِ عبدِ الرحمنِ مَوْلَى آلِ طلحَةَ عن سُليمانَ ابنِ يَسَارٍ عن عبدِ اللَّهِ بن عُتْبَةَ عن عُمَرُ بنُ الخطابِ أنَّهُ قال : - ينْكِحُ العبدُ امرأتينِ ويُطَلِّقُ تَطْلِيقَتَيْنِ وتَعْتَدُّ الأَمَّةُ حَيْضَتَيْنِ فإنْ لم تكنْ تحيضُ فشهرينِ أوْ شهراً ونصفاً قال سفيانُ : وكان ثقَةً ( ومنه يؤخذ أن عدة الأمة على النصف من عدة الحرة ) [مسند الشافعي،ص: 1283]۔

امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ قَالَ: نا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: " يَنْكِحُ الْعَبْدُ اثْنَتَيْنِ وَيُطَلِّقُ تَطْلِيقَتَيْنِ، وَتَعْتَدُّ الْأَمَةُ حَيْضَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ تَحِضْ فَشَهْرًا وَنِصْفًا أَوْ قَالَ: شَهْرَيْنِ، شَكَّ سُفْيَانُ "[سنن سعيد بن منصور: 1/ 344]۔
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
١٣: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک زبردستی کی طلاق مردود ہے۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجُمَحِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قُدَامَةَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَدَلَّى بِشَتَّارٍ عَسَلًا فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فَجَلَسَتْ عَلَى الْحَبْلِ، فَقَالَتْ: لَتُطَلِّقَنَّهَا ثَلَاثًا وَإِلَّا قَطَعَتِ الْحَبْلَ، فَذَكَّرَهَا اللَّهَ وَالْإِسْلَامَ أَنْ تَفْعَلَ فَأَبَتْ أَوْ تَقْطَعَ الْحَبْلَ أَوْ يُطَلِّقَهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَلَيْسَ هَذَا بِطَلَاقٍ»[سنن سعيد بن منصور: 1/ 313]۔
١٤: عمرفاروق رضی اللہ عنہ رکوع والا رفع الیدین کرتے اور ہرنماز کی آخری بیٹھک میں تورک کرتے تھے اوراسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتلاتے تھے۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: حدثني أبو أحمد الحسين بن علي، قال: حدثنا محمد بن إسحاق، قال: حدثنا أحمد بن الحسن الترمذي، حدثنا الحجاج بن ابراهيم الازرق، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني حيوة، عن ابي عيسي سليمان بن کيسان، عن عبد الله بن القاسم، قال: بينما الناس يصلون يطلولون في القيام والقعود والرکوع والسجود اذ خرج عمر بن الخطاب فلما راي ذلک غضب وهيت بهم حتي تجوزوا في الصلاة فانصرفوا فقال عمر اقبلوا علي بوجوهکم وانظروا الي کيف اصلي بکم صلاة رسول الله صلي الله عليه وسلم التي کان يصلي فيأمر بها فقام مستقبل القبلة فرفع يديه حتي حاذا بهما منکبيه فکبر ثم غض بصره وخفض جناحه ثم قام قدر ما يقرأ بأم القرأن وسورة من المفصل ثم رفع يديه حتي حاذي بهما منکبيه فکبر ثم رکع فوضع راحتيه علي رکبتيه وبسط يديه عليهما ومد عنقه وخفض عجزه غير منصوب ولا متقنع حتي ان لو قطرة ماء وقعت في فقرة قفاه لم تنته ان تقع فمکث قدر ثلاث تسبيحات غير عجل ثم کبر وذکر الحديث الي ان قال ثم کبر فرفع رأسه فاستوي علي عقبيه حتي وقع کل عظم منه موقعه ثم کبر فسجد قدر ذلک ورفع رأسه فاستوي قائما ثم صلي رکعة اخري مثلها ثم استوي جالسا فنحي رجليه عن مقعدته والزم مقعدته الارض ثم جلس قدر ان يتشهد بتسع کلمات ثم سلم وانصرف فقال للقوم هـکذا کان رسول اله صلي الله عليه وسلم يصلي بنا.[خلافيات البيهقي ـ نقلا عن ـ مسند الفاروق لابن کثير:1/ 166 - 164، وهو موجود في المكتبة الشاملة، وشرح الترمذي لإبن سيد الناس: 2/ 712، مخطوط، وفيه ذكر إسناده كاملا وذكره أيضا مختصرا الحافظ ابن حجر في الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 154والزيلعي في نصب الراية 1/ 415 وإسناده حسن].
١٥: ھدم طلاق سے متعلق عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا موقف۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ، فَتَزَوَّجَتْ، ثُمَّ إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا، ثُمَّ إِنَّ الْأَوَّلَ تَزَوَّجَهَا، عَلَى كَمْ هِيَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے دوسری سند سے کہا:
نا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: «عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[سنن سعيد بن منصور: 1/ 398]۔
١٦: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو’’ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ‘‘ کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: رُفِعَ إِلَى عُمَرَ رَجُلٌ فَارَقَ امْرَأَتَهُ بِتَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: «مَا كُنْتُ لِأَرُدُّهَا عَلَيْهِ أَبَدًا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 405]۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، نا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَجْعَلَ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ أَنْ أَجْعَلَهَا وَاحِدَةً، وَلَكِنَّ أَقْوَامًا حَمَلُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ، فَأَلْزِمْ كُلَّ نَفْسٍ مَا أَلْزَمَ نَفْسَهُ، مَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ فَهِيَ حَرَامٌ، وَمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ بَائِنَةٌ فَهِيَ بَائِنَةٌ، وَمَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَهِيَ ثَلَاثٌ "[سنن سعيد بن منصور: 1/ 301]۔
١٧: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تُقْطَعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ» وَقَالَتْ عَمْرَةُ: قَطَعَ عُمَرُ فِي أُتْرُجَّةٍ "[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو يَعْلَى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا شَيْبَانُ، ثنا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي مِجَنٍّ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ يُسَاوِي؟ قَالَ: خَمْسَةَ دَرَاهِمَ " [السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔
١٨: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضب حلال ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «ضَبٌّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَجَاجَةٍ»[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 125]۔
امام ابن طبری رحمه الله (المتوفى:310 )نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مَكَانَ كُلِّ ضَبٍّ دَجَاجَةً»[تهذيب الآثار مسند عمر (1/ 173)]۔
١٩: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعہ (بٹائی پر کھیت دینا) جائزہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ: «إِنْ نَظَرْتَ فِي آلِ أَبِي بَكْرٍ، وَآلِ عُمَرَ، وَآلِ عَلِيٍّ وَجَدْتُهُمْ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ»
[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 377]۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256)نے کہا:
مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ[صحيح البخاري: 6/ 48]۔
٢٠: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدت ایلا گذرجانے کے بعد رجوع یا طلاق ہے۔
امام طبری رحمه الله (المتوفى:310)نے کہا:
حدثنا علي بن سهل قال، حدثنا الوليد بن مسلم قال، أخبرنا المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب عن سعيد بن المسيب: أن عمر قال في الإيلاء: لا شيء عليه حتى يُوقَف، فيطلق أو يمسك [تفسير الطبري (4/ 488)]۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
جناب نبی کریم ﷺ سے فیض یافتہ حضرات ہر ایک اپنے مقام پر ہدایت کا روشن آفتاب ہیں۔ یہ بات کسی کے مخفی نہیں کہ جیسا فیض آپ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ کو نصیب ہوا بحیثیت مجموعی کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا، اور انہی وجودِ مسعود سے اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا
ترجمہ
وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے نیک کام۔ البتہ (آپ کے بعد) حاکم کردے گا اُن کو مُلک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو، اور جمادے گا اُن کے لئے دین ان کا جو پسند کردیا ان کے واسطے، اور دے گا اُن کو اُن کے ڈر کے بدلے امن، میری بندگی کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو کوئی ناشکری کریگا اس کے بعد، سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
(النور، رکوع 7)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام ی بہت بڑی فضیلت اور منقبت ثابت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کو معیار حق گردانتے ہوئے ہمیں اُن کی اتباع اور پیروی کرنے کا حکم دیا ہے،
ترجمہ
یعنی جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ سو تم پر لازم ہے کہ تم میری اور میرے خلفائے راشدیںؓ کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں، مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو۔ اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔
(ابن جامہ، ابوداؤد جدل 2، مسند احمد جلد 4
جی ہاں بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں آپ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جو فضیلت صحابہ کرام کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں ہے. مگر ان سب کے باوجود انکی تقلید کا حکم کہیں نہیں ہے.​
حضرات خلفائے راشدینؓ نے درحقیقت آپ ہی کی سنت پر عمل کیا، اور ان کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یا اسلئے کہ انہوں نے خود قیاس اور استنباط کر کے اس کو اختیار کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے جو کام اپنے قیاس استنباط سے سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ بھی سنت ہے کیوںکہ حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے تحت اُس پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے بھی جلیل القدر بزرگان دین نے یہ ہی سمجھا ہے کہ صحابہ کرام رضوان و اجمعین نے جو کام اپنے قیاس و اجتہاد سے صادر فرمایا ہو وہ بھی سنت کے موافق ہے۔
جیسے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے شرابی کو چالیس چالیس کوڑے سزادی۔ اس سے زیادہ ان سے ثابت نہیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزادی ہے، یہ بھی سنت ہے۔ چنانچہ علیؓ فرماتے ۃٰن کہ
جلد النبی صل اللہ علیہ وسلم اربعین و ابو بکرؓ اربعین و عمرؓ نمانین و کل سنۃ
(مسلم جلد 2، ابوداؤد جلد2، ابن ماجہ)
ترجمہ
آنحضرت ﷺ اور ھضرت ابو بکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزادی اور حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں
یہ روایت صحیح مسلم کی ہے، اور کہنے والے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنت اور بدعت، اتباع و تقلید کے مفہوم کو خوب اچھی طرح جانتے بھی ہیں وہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عمل کو سنت کہتے ہیں جو بظاہر جناب نبی کریم ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے۔
آپکی یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے؟؟؟آپ اجتہاد کو سنّت میں کیوں شامل کر رہے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ الله اور اس کے رسول کی جانب غلط بات کی نسبت کرنا حرام ہے.
مجھے یہ بتایے کے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے یا نہیں؟؟؟ اور نص کی موجودگی میں یعنی الله کے حکم کے آگے قیاس، اجتہاد، استنباط کیا جا سکتا ہے؟؟؟
یہ صحیح ہے کہ صحابہ کرام میں عقائد کا اختلاف نہیں تھا،ہاں لا علمی کی وجہ سے بعض مسائل میں صحابہ کرام سے چوک ہو جاتی تھی لیکن جوں ہی انکو حدیث مل جاتی وہ اپنے فتوے لسے رجوع کر لیا کرتے تھے
اس قسم کی مثالیں بھی کتب احادیث میں ملتی ہیں.یہ بھی ہوا ہے کہ صحابی اپنے فتوے پر قائم رہے انکو اپنے فتوے کے خلاف حدیث کا علم نہیں ہو
سکا
  • جس طرح سیدنا عمرؓ نے قراءت کے مسئلہ میں ایک صحابی سے اختلاف پر اسے لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں آ حاضر ہوئے
  • جب آپﷺ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کو سات قراءتوں میں نازل فرمایا گیا ہے تو تب سیدنا عمر کو معلوم ہوا... اس سے پہلے انہیں معلوم نہ تھا
ایسا اختلاف تو ہو جایا کرتا ہے. اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہاں قابل مواخذہ وہ اختلاف ہے، حدیث پہنچ جانے کے بعد اپنے کس بزرگ کے قول پر اڑ جاۓ، ہمارے خیر القرون کے اسلاف میں یہ بات نہ تھی وہ لوگ تقلیدی بندشوں سے آزاد تھے، مگر آج اس کے برعکس عمل ہوتا ہے.
اگر سیدنا عمر کی ایک سزا کے طور پر نافذ کئے گئے عمل کو ہم شریعت بنا لیں گے تو کیا اس سب کو نظر انداز کر دیں؟؟؟
  • آپ اس سب میں تطبیق دے سکتے ہیں کہ کم از کم سزا کتنی ہو اور زیادہ کتنی ہو
  • اور پھر یہ رائے بھی تو ایک صحابی نے دی ہے... آپ کو آزادی حاصل ہے کہ آپ نص کے مقابلے میں کسی کی بھی رائے کو نظر انداز کر دیں
  • جہاں تک صحابہ کی اقتدا کے بارے میں ہمارے نبی نے فرمایا ہے وہ ضروری نہیں کہ شریعت کے احکامات کے معاملہ میں ہو
  • یہ خلافت اور قیادت دنیاوی حکومتی امور میں اشارہ ہے نہ کہ شریعت کے معاملے میں
  • اس بات میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف آجائے تو اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات سب کو مسلم ۔
  • ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول حجت ہے ہم تو قرآن و حدیث کو صحابہ، ائمہ مجتہدین، مفسرین، محدثین و فقہاء کی رہنمائی میں سمجھتے ہیں۔
    جس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث پر عمل علماء فقہا و ماہرین کی رہنمائی میں کریں یہ اپنے نفس کے پوجاری بن کر
  • آپ کے دونوں قول میں تضاد ہے ایک طرف تو آپ کہ رہے ہیں کہ کوئی بات قرآن اور حدیث کے خلاف آ جاۓ تو اسے چھوڑ دیا جاۓ لیکن جب آپ کے سامنے ایک طرف قرآن اور حدیث کی بات رکھی جاۓ اور دوسری طرف آپکے بزرگ اور علماء کے اقوال تو آپ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں کے اقوال پر عمل کریں گے جب کہ وہ قول پوری طرح سے حدیث کے خلاف ہوگا. آپ لوگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں کے جس پر آپ عمل نہیں کرتے.​
  • تو یہ ایک وسوسہ ہے۔ جو سادہ لوح مسلمانوں کے متاثر کرنے کے لئے گھڑا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کی سات قرآتیں ہیں، حدیث میں بھی محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، راوی میں بھی محدثین کا اختلاف ہے کوئی ایک کے نزدیک ثقہ ہے تو دوسرے کے نزدیک ثقہ نہیں ہے،محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع ہوا ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ و فقہا کو چھوڑنا ہے تو سب کچھ چھوٹ جائے گا ، تو تو اب حدیث بھی گئی اور قرآن بھی اورصحابہ کرام کو بھی چھوڑناپڑے گا کیونکہ ان کے مابین بھی فروعی مسائل میں اختلاف موجود ہے ، اب فقہ بھی گئ قرآن وحدیث بھی اورصحابہ بھی توباقی کیا بچا ؟ سوائے ابلیس کے اب جو بھی اتباع کرے گا وہ تو صرف ابلیس کی ہی اتباع ہوسکتی ہے۔
    لطیفہ تو یہ ہے عام آدمی کو تو کہتے ہیں کہ ائمہ و صحابہ میں اختلاف ہے تم اہل حدیث میں شامل ہو جاو اب ایک عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجھے جس فرقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان(غیر مقلدین) میں آپس میں جو عقائید و نظریات کی کتنی خانہ جنگی ہے اگر وہ اس پر مطلع ہو جائےتو اس کی اتباع و تقلید کو دور کی بات ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ اگر کسی کو یقین نہ ائے تو مطالبہ کر کے دیکھ لے پھر ان کے عقائید و اختلافات بھی ذکر کر دوں گا۔ انشااللہ
    الحاصل ہم نے احادیث پیش کر دیں ہیں ایک نہیں بلکہ کئی اب مذید احادیث بھی سن لیں
    حضرت عبداللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں
    عن النبی سلی اللہ علیہ وسلم، قال خیر الناس قرنی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یلو فھم تم یجئ اقوام تسبق شھادۃ احد ھم یمینہ و یمینہ شھادتہ
    (بخاری جلد1، مسلم جلد 2)
    ترجمہ
    آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں۔ پھر ان کے بعد والے(تابعین) اور پھر ان کے بعد والے(تباتعبین)۔ پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادت قسم سے، اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرلے گی۔
    حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا
    اوصیکم با صحابی ثم الذین یلو نھم ثم الذین یا و فھم ثم یفشو الکذب حتی یحلف الرجل ولا یستحلف و یشھد ولا یستشھد فمن اواد منکم بجبو حۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ
    (مسند ابو داؤد، مستدرک جلد 1)
    ترجمہ:
    میں تمہیں اپنے صحابہؓ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ اُن کے نقشِ قدم پر چلنا) پھر ان کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر اُن کے بارے میں جو اُن سے ملتے ہیں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گ یہانتک کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اُٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے۔ سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے۔
    غیر مقلدین کے گزارش ہے کہ کم سے کم حضور ﷺ کی اس وصیت کا ہی خیال کر لیں اگر حضور ﷺ نے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا کہا ہے تو ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کی تعلیمات اور اُن کے نقشِ قدم پر بھی چلنےکی وصیت بھی کی ہے۔
    حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ
    سال رجل النبی صل اللہ علیہ وسلم ای الناس خیر قال القرن الذی انا فیہ ثم الثانی ثم الثالث
    (مسلم جلد 2)
    ترجمہ
    ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیاکہ کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ وہ قرن بہتر ہے جس میں میں ہوں پھر دوسرا (تابعین )قرن بہتر ہے اور پھر تیسرا (تبع تابعین کا قرن بہتر ہے)
    ان روایات سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ خیرالقرون کے بعد جو لوگ پیشا ہوں گے، اُن میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیرالقرون میں تھی اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا لیحاظہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعمل بھی حجت ہے صرف حدیث کا رونا رونے والوں کو خوب آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ حضرت محمد ﷺ کیا فرما رہے ہیں اور یہ غیر مقلد ہو کر بھی اپنے نفس کی تقلید کر رہے ہیں۔
    منصف مزاج کے لئے اتنا کافی ہے اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو آگے مزید دلائیل دئے جائیں کے انشاللہ
    [*]
  • سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کا یہ بہت اچھا طریقہ ہے کہ انکو بس یہ کہ دیا جاۓ ک اپ لوگوں کے پاس عقل نہیں ہے کہ آپ لوگ براہ راست قرآن اور حدیث کو سمجھ کر پڑھ سکیں اس لیے اپ کے پاس تقلید کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اب آپ اسے کسی بھی گمراہ کن انسان کی تقلید کا کہ دیں گے تو وہ اسے حق سمجھ کر قبول کر لیگا کیوں کہ اس کہ ذہن میں تو یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ قرآن اور حدیث صرف علماء کے سمجھنے کی کتاب ہے

    عرض ہے کہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدَؒ اور امام اعظم ابو حنفیہ ؒیہ سب ہمارے اکابرین ہیں لیکن دلائیل کی روشنی میں اگر کسی سے اختلاف ہو جائے تو ہم اس کو رحمت سمجھتے ہیں زحمت نہیں۔ اور نہایت آدب سے ان کے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر دلیل کی بنیاد پر صحابی نے صحابی سے اختلاف کرلیا تو آپ کو کیوں اتنا بُرا لگ رہا ہے۔
    دراصل حدیث میں موجود علت پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ حدیث تو ایک ہی ہو لیکن اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے اختلاف ہوجاتا ہے لیکن ایسا اختلاف جیسا کے پہلے عرض کردیا گیا ہے باعث خیر ہوتا ہے
    ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے
    تو آپ ہی جواب دیں نا کہ کیا حضرت عمرؓ نے اللہ کو چھوڑ کر کن عالموں کو درویش مان لیا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟


  • اسکا جواب آپکو اوپر دیا جا چکا ہے
    حدیث پہنچ جانے کے بعد اپنے کس بزرگ کے قول پر اڑ جاۓ، ہمارے خیر القرون کے اسلاف میں یہ بات نہ تھی وہ لوگ تقلیدی بندشوں سے آزاد تھے، مگر آج اس کے برعکس عمل ہوتا ہے
  • ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیاہے
  • یہ بات تو آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الله کے نبی نے جس کو حرام قرار دے دیا اپ لوگ اس چیز کو اپنے علما کے کہنے پر جائز کر دیتے ہیں. شریعت میں اضافہ صرف الله کا کام ہے اگر کوئی اپنے علما کو حلال اور ،حرام کا حق دیدیتا ہے تو یہ آیت اسی کے لیے ہے
 

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
١٣: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک زبردستی کی طلاق مردود ہے۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجُمَحِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قُدَامَةَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَدَلَّى بِشَتَّارٍ عَسَلًا فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فَجَلَسَتْ عَلَى الْحَبْلِ، فَقَالَتْ: لَتُطَلِّقَنَّهَا ثَلَاثًا وَإِلَّا قَطَعَتِ الْحَبْلَ، فَذَكَّرَهَا اللَّهَ وَالْإِسْلَامَ أَنْ تَفْعَلَ فَأَبَتْ أَوْ تَقْطَعَ الْحَبْلَ أَوْ يُطَلِّقَهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَلَيْسَ هَذَا بِطَلَاقٍ»[سنن سعيد بن منصور: 1/ 313]۔
١٤: عمرفاروق رضی اللہ عنہ رکوع والا رفع الیدین کرتے اور ہرنماز کی آخری بیٹھک میں تورک کرتے تھے اوراسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتلاتے تھے۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: حدثني أبو أحمد الحسين بن علي، قال: حدثنا محمد بن إسحاق، قال: حدثنا أحمد بن الحسن الترمذي، حدثنا الحجاج بن ابراهيم الازرق، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني حيوة، عن ابي عيسي سليمان بن کيسان، عن عبد الله بن القاسم، قال: بينما الناس يصلون يطلولون في القيام والقعود والرکوع والسجود اذ خرج عمر بن الخطاب فلما راي ذلک غضب وهيت بهم حتي تجوزوا في الصلاة فانصرفوا فقال عمر اقبلوا علي بوجوهکم وانظروا الي کيف اصلي بکم صلاة رسول الله صلي الله عليه وسلم التي کان يصلي فيأمر بها فقام مستقبل القبلة فرفع يديه حتي حاذا بهما منکبيه فکبر ثم غض بصره وخفض جناحه ثم قام قدر ما يقرأ بأم القرأن وسورة من المفصل ثم رفع يديه حتي حاذي بهما منکبيه فکبر ثم رکع فوضع راحتيه علي رکبتيه وبسط يديه عليهما ومد عنقه وخفض عجزه غير منصوب ولا متقنع حتي ان لو قطرة ماء وقعت في فقرة قفاه لم تنته ان تقع فمکث قدر ثلاث تسبيحات غير عجل ثم کبر وذکر الحديث الي ان قال ثم کبر فرفع رأسه فاستوي علي عقبيه حتي وقع کل عظم منه موقعه ثم کبر فسجد قدر ذلک ورفع رأسه فاستوي قائما ثم صلي رکعة اخري مثلها ثم استوي جالسا فنحي رجليه عن مقعدته والزم مقعدته الارض ثم جلس قدر ان يتشهد بتسع کلمات ثم سلم وانصرف فقال للقوم هـکذا کان رسول اله صلي الله عليه وسلم يصلي بنا.[خلافيات البيهقي ـ نقلا عن ـ مسند الفاروق لابن کثير:1/ 166 - 164، وهو موجود في المكتبة الشاملة، وشرح الترمذي لإبن سيد الناس: 2/ 712، مخطوط، وفيه ذكر إسناده كاملا وذكره أيضا مختصرا الحافظ ابن حجر في الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 154والزيلعي في نصب الراية 1/ 415 وإسناده حسن].
١٥: ھدم طلاق سے متعلق عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا موقف۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ، فَتَزَوَّجَتْ، ثُمَّ إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا، ثُمَّ إِنَّ الْأَوَّلَ تَزَوَّجَهَا، عَلَى كَمْ هِيَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے دوسری سند سے کہا:
نا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: «عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ»[سنن سعيد بن منصور: 1/ 398]۔
١٦: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو’’ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ‘‘ کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: رُفِعَ إِلَى عُمَرَ رَجُلٌ فَارَقَ امْرَأَتَهُ بِتَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: «مَا كُنْتُ لِأَرُدُّهَا عَلَيْهِ أَبَدًا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 405]۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، نا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَجْعَلَ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ أَنْ أَجْعَلَهَا وَاحِدَةً، وَلَكِنَّ أَقْوَامًا حَمَلُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ، فَأَلْزِمْ كُلَّ نَفْسٍ مَا أَلْزَمَ نَفْسَهُ، مَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ فَهِيَ حَرَامٌ، وَمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ بَائِنَةٌ فَهِيَ بَائِنَةٌ، وَمَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَهِيَ ثَلَاثٌ "[سنن سعيد بن منصور: 1/ 301]۔
١٧: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تُقْطَعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ» وَقَالَتْ عَمْرَةُ: قَطَعَ عُمَرُ فِي أُتْرُجَّةٍ "[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو يَعْلَى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا شَيْبَانُ، ثنا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي مِجَنٍّ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ يُسَاوِي؟ قَالَ: خَمْسَةَ دَرَاهِمَ " [السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔
١٨: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضب حلال ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «ضَبٌّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَجَاجَةٍ»[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 125]۔
امام ابن طبری رحمه الله (المتوفى:310 )نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مَكَانَ كُلِّ ضَبٍّ دَجَاجَةً»[تهذيب الآثار مسند عمر (1/ 173)]۔
١٩: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعہ (بٹائی پر کھیت دینا) جائزہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ: «إِنْ نَظَرْتَ فِي آلِ أَبِي بَكْرٍ، وَآلِ عُمَرَ، وَآلِ عَلِيٍّ وَجَدْتُهُمْ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ»
[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 377]۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256)نے کہا:
مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ[صحيح البخاري: 6/ 48]۔
٢٠: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدت ایلا گذرجانے کے بعد رجوع یا طلاق ہے۔
امام طبری رحمه الله (المتوفى:310)نے کہا:
حدثنا علي بن سهل قال، حدثنا الوليد بن مسلم قال، أخبرنا المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب عن سعيد بن المسيب: أن عمر قال في الإيلاء: لا شيء عليه حتى يُوقَف، فيطلق أو يمسك [تفسير الطبري (4/ 488)]۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!
مجھے پوری امید تھی کہ آپ میری پوسٹ کا جواب نہیں دیں گے۔ جب حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کے صحابی کے نقش قدم پر چلو اور صحابی صرف حضرت عمر رصی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ کافی بڑی جماعت صحابی تھی تو اُن میں سے کسی کے بھی نقش قدم پر چلا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ صحابہ میں بھی اختلاف تھے اور ایسے ہی بعض اختلاف ائمہ میں ہیں۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی ثابت کیا جا چکا ہے کہ تبع تابعین تک کا تعمل حجت ہے اس لئے اُن کے نقش قدم پر چلانا ضروری ہے۔ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
آپ نے جن مسائل کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے وہ تو ایک مستقل عنوان ہیں جن پر اگر آپ بحث کرنا چاہیں تو ہر عنوان کے تحت ایک تھریڈ بنا لیں پھر متعلقہ تھریڈ میں بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے صحابہ کرام رضوان و اجماعین، تابعین اور تبع تابعین کے متعلق جو حدیث مبارکہ میں نے پیش کی ہیں اُس پر لب کُشائی فرمائیں

آپ سے درخواست ہے کہ میں نے جو دلائیل پیش کئے ہیں اُن کا جواب دیں اس طرح اعتراضات تو آپ لوگ کرتے ہی رہیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کے غلط مبحث نہ کریں بلکہ میری پوسٹ کا جواب دیں۔
[DOUBLEPOST=1349438010][/DOUBLEPOST]
جی ہاں بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں آپ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جو فضیلت صحابہ کرام کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں ہے. مگر ان سب کے باوجود انکی تقلید کا حکم کہیں نہیں ہے.​

آپکی یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے؟؟؟آپ اجتہاد کو سنّت میں کیوں شامل کر رہے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ الله اور اس کے رسول کی جانب غلط بات کی نسبت کرنا حرام ہے.
مجھے یہ بتایے کے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے یا نہیں؟؟؟ اور نص کی موجودگی میں یعنی الله کے حکم کے آگے قیاس، اجتہاد، استنباط کیا جا سکتا ہے؟؟؟
یہ صحیح ہے کہ صحابہ کرام میں عقائد کا اختلاف نہیں تھا،ہاں لا علمی کی وجہ سے بعض مسائل میں صحابہ کرام سے چوک ہو جاتی تھی لیکن جوں ہی انکو حدیث مل جاتی وہ اپنے فتوے لسے رجوع کر لیا کرتے تھے
اس قسم کی مثالیں بھی کتب احادیث میں ملتی ہیں.یہ بھی ہوا ہے کہ صحابی اپنے فتوے پر قائم رہے انکو اپنے فتوے کے خلاف حدیث کا علم نہیں ہو
سکا
  • جس طرح سیدنا عمرؓ نے قراءت کے مسئلہ میں ایک صحابی سے اختلاف پر اسے لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں آ حاضر ہوئے
  • جب آپﷺ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کو سات قراءتوں میں نازل فرمایا گیا ہے تو تب سیدنا عمر کو معلوم ہوا... اس سے پہلے انہیں معلوم نہ تھا
ایسا اختلاف تو ہو جایا کرتا ہے. اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہاں قابل مواخذہ وہ اختلاف ہے، حدیث پہنچ جانے کے بعد اپنے کس بزرگ کے قول پر اڑ جاۓ، ہمارے خیر القرون کے اسلاف میں یہ بات نہ تھی وہ لوگ تقلیدی بندشوں سے آزاد تھے، مگر آج اس کے برعکس عمل ہوتا ہے.
اگر سیدنا عمر کی ایک سزا کے طور پر نافذ کئے گئے عمل کو ہم شریعت بنا لیں گے تو کیا اس سب کو نظر انداز کر دیں؟؟؟
  • آپ اس سب میں تطبیق دے سکتے ہیں کہ کم از کم سزا کتنی ہو اور زیادہ کتنی ہو
  • اور پھر یہ رائے بھی تو ایک صحابی نے دی ہے... آپ کو آزادی حاصل ہے کہ آپ نص کے مقابلے میں کسی کی بھی رائے کو نظر انداز کر دیں
  • جہاں تک صحابہ کی اقتدا کے بارے میں ہمارے نبی نے فرمایا ہے وہ ضروری نہیں کہ شریعت کے احکامات کے معاملہ میں ہو
  • یہ خلافت اور قیادت دنیاوی حکومتی امور میں اشارہ ہے نہ کہ شریعت کے معاملے میں
  • آپ کے دونوں قول میں تضاد ہے ایک طرف تو آپ کہ رہے ہیں کہ کوئی بات قرآن اور حدیث کے خلاف آ جاۓ تو اسے چھوڑ دیا جاۓ لیکن جب آپ کے سامنے ایک طرف قرآن اور حدیث کی بات رکھی جاۓ اور دوسری طرف آپکے بزرگ اور علماء کے اقوال تو آپ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں کے اقوال پر عمل کریں گے جب کہ وہ قول پوری طرح سے حدیث کے خلاف ہوگا. آپ لوگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں کے جس پر آپ عمل نہیں کرتے.​
  • سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کا یہ بہت اچھا طریقہ ہے کہ انکو بس یہ کہ دیا جاۓ ک اپ لوگوں کے پاس عقل نہیں ہے کہ آپ لوگ براہ راست قرآن اور حدیث کو سمجھ کر پڑھ سکیں اس لیے اپ کے پاس تقلید کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اب آپ اسے کسی بھی گمراہ کن انسان کی تقلید کا کہ دیں گے تو وہ اسے حق سمجھ کر قبول کر لیگا کیوں کہ اس کہ ذہن میں تو یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ قرآن اور حدیث صرف علماء کے سمجھنے کی کتاب ہے


  • اسکا جواب آپکو اوپر دیا جا چکا ہے
    حدیث پہنچ جانے کے بعد اپنے کس بزرگ کے قول پر اڑ جاۓ، ہمارے خیر القرون کے اسلاف میں یہ بات نہ تھی وہ لوگ تقلیدی بندشوں سے آزاد تھے، مگر آج اس کے برعکس عمل ہوتا ہے
  • یہ بات تو آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الله کے نبی نے جس کو حرام قرار دے دیا اپ لوگ اس چیز کو اپنے علما کے کہنے پر جائز کر دیتے ہیں. شریعت میں اضافہ صرف الله کا کام ہے اگر کوئی اپنے علما کو حلال اور ،حرام کا حق دیدیتا ہے تو یہ آیت اسی کے لیے ہے
آپ نے جو جو باتیں کی ہیں اُن پر دلیل دیں ایسے اپنے من کی بات کر کے حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم کا رد نہ کریں۔ اور کچھ خدا کا خوف بھی کریں
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
مجھے پوری امید تھی کہ آپ میری پوسٹ کا جواب نہیں دیں گے۔ جب حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کے صحابی کے نقش قدم پر چلو اور صحابی صرف حضرت عمر رصی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ کافی بڑی جماعت صحابی تھی تو اُن میں سے کسی کے بھی نقش قدم پر چلا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ صحابہ میں بھی اختلاف تھے اور ایسے ہی بعض اختلاف ائمہ میں ہیں۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی ثابت کیا جا چکا ہے کہ تبع تابعین تک کا تعمل حجت ہے اس لئے اُن کے نقش قدم پر چلانا ضروری ہے۔ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
آپ نے جن مسائل کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے وہ تو ایک مستقل عنوان ہیں جن پر اگر آپ بحث کرنا چاہیں تو ہر عنوان کے تحت ایک تھریڈ بنا لیں پھر متعلقہ تھریڈ میں بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے صحابہ کرام رضوان و اجماعین، تابعین اور تبع تابعین کے متعلق جو حدیث مبارکہ میں نے پیش کی ہیں اُس پر لب کُشائی فرمائیں
آپ سے درخواست ہے کہ میں نے جو دلائیل پیش کئے ہیں اُن کا جواب دیں اس طرح اعتراضات تو آپ لوگ کرتے ہی رہیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کے غلط مبحث نہ کریں بلکہ میری پوسٹ کا جواب دیں۔
[DOUBLEPOST=1349438010][/DOUBLEPOST]
آپ نے جو جو باتیں کی ہیں اُن پر دلیل دیں ایسے اپنے من کی بات کر کے حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم کا رد نہ کریں۔ اور کچھ خدا کا خوف بھی کریں
jazakAllah khair
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
آپ نے جو جو باتیں کی ہیں اُن پر دلیل دیں ایسے اپنے من کی بات کر کے حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم کا رد نہ کریں۔ اور کچھ خدا کا خوف بھی کریں
mai ne jo baten kahi hain ap unhe ghalat sabit krye, mai ne ksi hadees ka radd nhi kia hai, muje to Allah ka khof hai magar ap b kuch khof kren.
Allah k nabi ki janib ghalat bat ko mansoob krte hain jo k unho ne nhi kahi hain,
or is ayat ko parhye or iski tafseer b parhye. or btaye k jb agar ksi sahabi ko kuch ikhtiyar hai to Allah ne kyon unki bat ko radd kia or kaha k ksi ko b ye ikhtiyar nhi hai k Allah or us ka Rasool k hukm mai apna kuch ikhtiyar samjhen,
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
(١) ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﯾﻨﺐ ﺃ ﻛﮯ ﻧﲀﺡ ﻛﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﯾﺪ ﺑﻦ ﺣﺎﺭﺛﮧ ﺅ, ﺟﻮ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﺻﻼﹰ ﻋﺮﺏ ﺗﮭﮯ, ﻟﯿﻜﻦ ﻛﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﭘﻜﮍ ﻛﺮ ﺑﻄﻮﺭ ﻏﻼﻡ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺪﯾﺠﮧ ﺃ ﻛﮯ ﻧﲀﺡ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺪﯾﺠﮧ ﺃ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﹲ ﻛﻮ ﮨﺒﮧ ﻛﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ ﹲ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﻛﺮﻛﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻛﮯ ﻧﲀﺡ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮭﻮﭘﮭﯽ ﺯﺍﺩ ﺑﮩﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﯾﻨﺐ ﺃ ﻛﻮ ﻧﲀﺡ ﰷ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯿﺠﺎ, ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻛﻮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻭﺟﺎﮨﺖ ﻛﯽ ﺑﻨﺎﺈ ﭘﺮ ﺗﺎﻣﻞ ﮨﻮﺍ, ﻛﮧ ﺯﯾﺪ ﺅ ﺍﯾﻚ ﺁﺯﺍﺩ ﻛﺮﺩﮦ ﻏﻼﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﯾﻚ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺟﺲ ﰷ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﻛﺴﯽ ﻣﻮﻣﻦ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﺮﻭﺋﮯﰷﺭ ﻻﺋﮯ۔ ﺑﻠﻜﮧ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺳﺮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﺧﻢ ﻛﺮﺩﮮ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺳﻨﻨﮯ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﯾﻨﺐ ﺃ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﭘﺮ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﰷ ﺑﺎﮨﻢ ﻧﲀﺡ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
مجھے پوری امید تھی کہ آپ میری پوسٹ کا جواب نہیں دیں گے۔ جب حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کے صحابی کے نقش قدم پر چلو اور صحابی صرف حضرت عمر رصی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ کافی بڑی جماعت صحابی تھی تو اُن میں سے کسی کے بھی نقش قدم پر چلا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ صحابہ میں بھی اختلاف تھے اور ایسے ہی بعض اختلاف ائمہ میں ہیں۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی ثابت کیا جا چکا ہے کہ تبع تابعین تک کا تعمل حجت ہے اس لئے اُن کے نقش قدم پر چلانا ضروری ہے۔ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
آپ نے جن مسائل کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے وہ تو ایک مستقل عنوان ہیں جن پر اگر آپ بحث کرنا چاہیں تو ہر عنوان کے تحت ایک تھریڈ بنا لیں پھر متعلقہ تھریڈ میں بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے صحابہ کرام رضوان و اجماعین، تابعین اور تبع تابعین کے متعلق جو حدیث مبارکہ میں نے پیش کی ہیں اُس پر لب کُشائی فرمائیں
آپ سے درخواست ہے کہ میں نے جو دلائیل پیش کئے ہیں اُن کا جواب دیں اس طرح اعتراضات تو آپ لوگ کرتے ہی رہیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کے غلط مبحث نہ کریں بلکہ میری پوسٹ کا جواب دیں۔
[DOUBLEPOST=1349438010][/DOUBLEPOST]
آپ نے جو جو باتیں کی ہیں اُن پر دلیل دیں ایسے اپنے من کی بات کر کے حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم کا رد نہ کریں۔ اور کچھ خدا کا خوف بھی کریں

عمر فارق رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَمَتَّعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
[صحيح البخاري: 4/ 78]
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر راضی اللہ کے بیٹے کیا کہتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔
(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
ااب باتیں کہ جس طرح آپ کہتے ہیں کہ ہر صحابی کا قول حجت ہے
اور کسسی بھی صحابی کے پیچھے چلا جا سکتا ہے
حضرت عبدللہ بن عمر راضی اللہ
اپنے والد
حضرت عمر راضی اللہ کے پیچھے کیوں نہ چلے
صحابہ کرام نے بھی
جب کبھی صحیح حدیث مل گئی تو اس کی طرف رجوح کیا اور دوسرے صحابی کے قول کو رد کر دیا
لکن آپ لوگوں کی ہٹ دھرمی کہ صرف اپنے اماموں کو بچانے کی خاطر صحیح احادیث کو ٹھوکر مار رھے ہیں
[DOUBLEPOST=1349447852][/DOUBLEPOST]
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں انبیاءکے بعد سب سے افضل ہیں ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں مرنے والے کی نانی لگتی ہوں اس کی وراثت میں میرا کونسا حصہ ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے علم کے مطابق تمہارا کوئی حصہ نہیں ۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دلایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو کہا کہ تمہارا چھٹا حصہ ہے۔
(موطا اما م مالک رحمتہ اللہ علیہ )
کیوں حضرت ابو بکر صدیق راضی اللہ کی بات کو مغیرہ بن شعبہ راضی اللہ نے رد کیا
کیوں حضرت ابو بکر راضی اللہ کی تقلید نہ کی
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ آئے ‘ تین دفعہ دستک دی جواب نہیں ملا واپس چلے گئے۔دوبارہ ملاقات پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا تم واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے کہ تین دفعہ دستک دو جواب نہ ملے واپس چلے جاﺅ۔عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جاﺅ گواہی لے کر آﺅ ۔وہ مسجد نبوی میں گئے وہاں کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث سنی ہے تو ان میں سے ایک نے جا کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے گواہی دی ۔
(بخاری )
حضرت عمر راضی اللہ نے کیوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی کی تقلید نہ کی
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس عورت کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہاکہ درست ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور ان کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ عورت کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ وہ عورت سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے پھر جب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ واپس لوٹے تو اسی سائل کے گھر گئے اور اس کو بتلایا کہ اس عورت (ماں ) کو چھوڑ دے ۔
(موطا امام مالک کتاب النکاح)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے کیوں صحیح حدیث ملنے کے بعد اپنا فیصلہ بدلا
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------​
اگر صحابہ کرام اپنے فیصلوں سے رجوح کر سکتے ہیں
تو ہم کیوں
اپنے فرقے کے اماموں کے فیصلوں سے رجوح نہیں کر سکتے
میرے بھایئو میں اب بھی یہی کہوں گا کہ اگر قرآن یا صحیح احادیث کے مقابلے میں کسسی بھی
بندے کی بات آ ے گی رد کر دی جا ے گی
وہ
بریلوی ھو
دیوبندی ھو
یا
اہلحدیث ھو
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
عمر فارق رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَمَتَّعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
[صحيح البخاري: 4/ 78]
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر راضی اللہ کے بیٹے کیا کہتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔
(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
ااب باتیں کہ جس طرح آپ کہتے ہیں کہ ہر صحابی کا قول حجت ہے
اور کسسی بھی صحابی کے پیچھے چلا جا سکتا ہے
حضرت عبدللہ بن عمر راضی اللہ
اپنے والد
حضرت عمر راضی اللہ کے پیچھے کیوں نہ چلے
صحابہ کرام نے بھی
جب کبھی صحیح حدیث مل گئی تو اس کی طرف رجوح کیا اور دوسرے صحابی کے قول کو رد کر دیا
لکن آپ لوگوں کی ہٹ دھرمی کہ صرف اپنے اماموں کو بچانے کی خاطر صحیح احادیث کو ٹھوکر مار رھے ہیں
[DOUBLEPOST=1349447852][/DOUBLEPOST]
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں انبیاءکے بعد سب سے افضل ہیں ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں مرنے والے کی نانی لگتی ہوں اس کی وراثت میں میرا کونسا حصہ ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے علم کے مطابق تمہارا کوئی حصہ نہیں ۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دلایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو کہا کہ تمہارا چھٹا حصہ ہے۔
(موطا اما م مالک رحمتہ اللہ علیہ )
کیوں حضرت ابو بکر صدیق راضی اللہ کی بات کو مغیرہ بن شعبہ راضی اللہ نے رد کیا
کیوں حضرت ابو بکر راضی اللہ کی تقلید نہ کی
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ آئے ‘ تین دفعہ دستک دی جواب نہیں ملا واپس چلے گئے۔دوبارہ ملاقات پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا تم واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے کہ تین دفعہ دستک دو جواب نہ ملے واپس چلے جاﺅ۔عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جاﺅ گواہی لے کر آﺅ ۔وہ مسجد نبوی میں گئے وہاں کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث سنی ہے تو ان میں سے ایک نے جا کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے گواہی دی ۔
(بخاری )
حضرت عمر راضی اللہ نے کیوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی کی تقلید نہ کی
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس عورت کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہاکہ درست ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور ان کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ عورت کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ وہ عورت سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے پھر جب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ واپس لوٹے تو اسی سائل کے گھر گئے اور اس کو بتلایا کہ اس عورت (ماں ) کو چھوڑ دے ۔
(موطا امام مالک کتاب النکاح)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے کیوں صحیح حدیث ملنے کے بعد اپنا فیصلہ بدلا
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------​
اگر صحابہ کرام اپنے فیصلوں سے رجوح کر سکتے ہیں
تو ہم کیوں
اپنے فرقے کے اماموں کے فیصلوں سے رجوح نہیں کر سکتے
میرے بھایئو میں اب بھی یہی کہوں گا کہ اگر قرآن یا صحیح احادیث کے مقابلے میں کسسی بھی
بندے کی بات آ ے گی رد کر دی جا ے گی
وہ
بریلوی ھو
دیوبندی ھو
یا
اہلحدیث ھو

JazakUMULLAHU wa khairaan bohot hi pyaari baat kahi ke
QURAN O AHADEETH ke khilaf jiski bhi baat aaye rad kar di jaaye
kyunke ISLAM ko ALLAH aur RASOOLALLAH saww se zyaada koi
nahin jaan sakta .
 

Fitna e Dil

Newbie
Apr 22, 2012
47
46
318
تقلید صرف غیر مجتہد ہی کرتا ہے مجتہد تقلید نہیں کرتا۔ صحابہ کرام مجتہد تھے اس لے وہ تقلید نہیں کرتے تھے لیکن وہ صحابہ جو درجہ اجتہاد پر نہ پہنچے تھے وہ مجتہد صحابہ کرام کی تقلید کرتے تھے۔
اصولی طور پر تو اس کا جواب میری پوسٹ نمبر 22 میں ہی تھا اگر آپ پوسٹ نمبر 22 کا جواب دیتے تو شاید آپ کو اس پوسٹ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ میں نے اپنی پوسٹ نمبر 22 میں لکھا تھا کہ
لیکن یہ تو ہمارے عمل کو ثابت کرتیں ہیں کہ اختلاف تو صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی ہوا اور ایسا ہی اختلاف ہمارے ائمہ کے درمیان بھی ہوا یہ اختلاف امت کے لئے رحمت ہے زحمت نہیں۔
اس سے معلوم پڑتا ہے کہ جو لوگ ائمہ کو چھوڑتے ہیں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ صحابہ کو بھی چھوڑ جاتے ۔
تو یہ ایک وسوسہ ہے۔ جو سادہ لوح مسلمانوں کے متاثر کرنے کے لئے گھڑا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کی سات قرآتیں ہیں، حدیث میں بھی محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، راوی میں بھی محدثین کا اختلاف ہے کوئی ایک کے نزدیک ثقہ ہے تو دوسرے کے نزدیک ثقہ نہیں ہے،محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع ہوا ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ و فقہا کو چھوڑنا ہے تو سب کچھ چھوٹ جائے گا ، تو تو اب حدیث بھی گئی اور قرآن بھی اورصحابہ کرام کو بھی چھوڑناپڑے گا کیونکہ ان کے مابین بھی فروعی مسائل میں اختلاف موجود ہے ، اب فقہ بھی گئ قرآن وحدیث بھی اورصحابہ بھی توباقی کیا بچا ؟ سوائے ابلیس کے اب جو بھی اتباع کرے گا وہ تو صرف ابلیس کی ہی اتباع ہوسکتی ہے۔
لطیفہ تو یہ ہے عام آدمی کو تو کہتے ہیں کہ ائمہ و صحابہ میں اختلاف ہے تم اہل حدیث میں شامل ہو جاو اب ایک عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجھے جس فرقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ان(غیر مقلدین) میں آپس میں جو عقائید و نظریات کی کتنی خانہ جنگی ہے اگر وہ اس پر مطلع ہو جائےتو اس کی اتباع و تقلید کو دور کی بات ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
ہم مذید کچھ عرض کر دیتے ہیں۔
صحیح مسلم میں ہے
عن ابی قیس مولیٰ عمروبن العاص عن عمرو بن العاص انہ سمع رسول اللہ ﷺ قال اذاحکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران واذاحکم فا جتھدثم اخطا فلہ اجر
(صحیح مسلم جلد 2، بخاری جلد 2)
ابو قیس سے روایت ہے کہ حضرت عمروبن عاص نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا جب ھاکم اجتہاد کرے اور پھر حق کو پہنچے تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔ اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا اگر کسی وجہ سے اجتہاد کی ضرورت پیش آجائے تو مجتہد کو حق ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اگر مجتہد کا اجتہاد غلط ہو جائے تو اُس کو ایک اجر ملتا ہے اور اگر صحیح ہو جائے تو دو۔ یہی اصول صحابہ اور ائمہ کے لئے بھی ہے کیوں کہ صھابہ کرام و ائمہ مجتہد تھے۔ اس لے اگر کسی وجہ سے صحابی کی رائے حدیث کے خلاف ہے تو پھر ہم اُس کو اجتھاد پر مہمول کریں گے جس پر مجتہد کو ایک اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔
جس کے نزدیک مجتہد کا اجتہاد غلط تھا وہ اُس کی اتباع یا تقلید کر لے جس کا اجتہاد درست ہے یا جس کو دو اجر دینے کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں تقلید اتباع تو کرنی ہی کرنی ہے۔
اجتہاد ہوتا ہی قرآن و حدیث اورسنت کی بنیاد پر اجتہاد کسی کی پسند یا نا پسند کا نام نہیں ہوتا۔
عن ابن عمر قال قال النبی صل اللہ علیہ وسلم یوم الا حزاب لا یصلین احد العصر الا فی قریظۃ فادرک بعضھم العصر فی الطریق فقال بعضھم لا نصلی حتی نا تیھا وقال بعضھم بل نصلی لم یر دمناذاک فذ کر ذالِک للنبی ﷺ فلم یعنف واحدََ امنھم
(بخاری جلد 2)
بخاری میں حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے دن صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ عصر کی نماز کوئی بھی بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے نہ پڑھے تو بعض صحابہؓ کو راستے ہی میں عصر کا وقت آگیا بعض نے کہا ہم نماز نہ پڑھیں گے جب تک ہم اس جگہ نہ پہنچ جائیں اور بعض نے کہا نہیں ہم تو نماز پڑھیں گے رسوال ﷺ کا یہ مطلب نہیں(بلکہ مقصود تاکید ہے جلد پہنچنے کی کہ ایسی کوشش کرو کہ عصر سے قبل وہاں پہنچ جاؤ) پھر یہ قصہ آپ ﷺ کے حضور میں ذکر کیا آپ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔
اس حدیث مبارکہ میں حضور ﷺ کی فرمان موجود تھا کہ عصر کی نماز بنی قیرظہ پہنچنے سے پہلے نہ پڑہیں لیکن پھر بھی بعض صحابہ کرام نے نماز ادا کی کیوں کہ اُن کے نزدیک حضور ﷺ کے فرمان بوطور تاقید تھا کہ اتنی جلدی پہنچوں کے عصر کی نماز تک وہاں پہنچ جاو۔ اور بعض صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سمجھا کہ نماز بنی قریظہ کے پاس جا کر ہی پڑھنی ہے اس سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے۔ لیکن جب بعد میں یہ واقعہ حضورﷺ کے دربار میں پیش کیا تو حضور ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی کے میں نے کہا تھا کہ عصر کی نماز وہاں پہنچ کر پڑھنا تم نے راستے میں کیوں پڑھ لی؟
اسی طرح صحابہ میں اختلاف ہے۔ مجتہد احادیث کو مکمل سیاق و سباق سے سمجھتے ہیں اور پھر اس میں موجود علت کے تحت اجتھہاد فرماتے ہیں۔ اگر کسی کا اجتہاد اصول اسلام کے خلاف ہو تو مطلع کرنے پر وہ رجوع کر لیتا ہے ۔
[DOUBLEPOST=1349524599][/DOUBLEPOST]
اب جب آپ دوبارہ پوسٹ کریں تو میری پوسٹ نمبر 22 کا جواب ضرور دیں آپ کو پہلے بھی کہا تھا اور پھر دوبارہ بول رہا ہوں امید ہے اس بار آپ ضرور میری پوسٹ نمبر 22 کا جواب دیں گے۔
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
Asalam o alikum to all muslims​
بھائی اختلاف تقلید پہ ہو رہا ہے جس کو یہ شرک اور بدعت اور حرام کہتے ہیں اور صرف احناف کے لئے ہی کہتے ہیں.
کیونکہ مقلد حنبلی، مالکی، اور شافعی بھی ہیں لیکن ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا.
میں نے کئی بار کہا کہ کیا تقلید پہ فتوی صرف احناف کے لئے ہے یا تمام ائمہ رحمہ اللہ کے مقلدین کے لئے لیکن یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ
جو قران اور حدیث کے خلاف ہو ہم نہیں مانتے،،،، اور فتوی صرف امام ابو حنیفہ رھمہ اللہ اور احناف کے لئے.
صرف اتنا بتا دیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رھمہ اللہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد تھے اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد تھے تو کیا ان کا تقلید کرنا صحیح ہے یا غلط اور کیا جو فتوی تقلید کی وجہ سے احناف پہ لگتا ہے وہی ان پر بھی لگے گا یا نہیں.
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
Asalam o alikum to all muslims​
شیخ عبدالقادر جیلانی رھمہ اللہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد تھے اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد تھے تو کیا ان کا تقلید کرنا صحیح ہے یا غلط اور کیا جو فتوی تقلید کی وجہ سے احناف پہ لگتا ہے وہی ان پر بھی لگے گا یا نہیں.

آپ کہ رھے ہیں کہ یہ سارے بزرگ
اماموں کے مقلد تھے
لکن سارے امام اپنی تقلید سے روک کر رھے ہیں


 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
لولی یہ ایک پوسٹ آپ کئی بار کر چکے ہیں.
اپ کیا ان کے مقلد ہونے سے انکار کرتے ہیں.
شیخ عبدالقادر جیلانی رھمہ اللہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد تھے اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد تھے تو کیا ان کا تقلید کرنا صحیح ہے یا غلط اور کیا جو فتوی تقلید کی وجہ سے احناف پہ لگتا ہے وہی ان پر بھی لگے گا یا نہیں
ائمہ اربعہ سے ایسے اقوال منقول ہیں جس میں انہوں نے کہاہے اذاصح الحدیث فھومذہبی امام شافعی کی یہ بات ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں صلاۃ وسطی کی بحث میں نقل کی ہے اورایسے ہی اوراسی کے ہم معنی اقوال امام عبدالوہاب شعرانی نے اپنی کتاب المیزان الکبری میں نقل کیاہے۔اسے لے کر کچھ لوگوں نے ایساکرنا شروع کردیا کہ ایک طرف کوئی حدیث رکھی اوردوسری جانب ایک حدیث رسول پیش کیااورپھر یہ قول عوام کے سامنے پیش کرکے کہادیکھو امام نے یہ قول کہاہے اورصحیح حدیث یہ ہے۔انٹر نیٹ پر بھی بعض حضرات نے ایساہی کیاہے کہ ایک جانب حدیث رسول سامنے رکھا اوردوسری جانب فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے مخالف ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کا محمل کچھ اور ہے اوراس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کم سے کم اجتہاد کی صلاحیت اورائمہ کرام کے دلائل سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ صرف تنہاحدیث کا جان لینا کافی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام ابومحمد عبداللہ بن وہب مصری نے کہاتھا الحدیث مضلۃ الاالعلماء
(ترتیب المدارک69/1)
حدیث جائے گمراہی ہے سوائے علماء کے۔یعنی اگرکوئی ناواقف حدیث پر عمل کرے اوروہ شرعی علوم میں مہارت حاصل نہ کرے تو وہ گمراہ ہوجائے گا۔
ائمہ کرام کے اس قول کے مخاطب وہ لوگ تھے جن کی نگاہ علوم دینیہ پر وسیع ہووہ حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی گہرے رسوخ کا مالک ہو اوراجتہاد فی المذہب کے درجہ کافقیہہ ہو۔چنانچہ امام نوویٌ امام شافعی کے اس قول کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔احتاط الشافعی رحمہ اللہ فقال ماھوثابت عنہ من اوجہ من وصیتہ بالعمل بالحدیث الصحیح،وترک قولہ المخالف للنص الثابت الصریح،وقدامتثل اصحابنارحمھم اللہ وصیتہ عملوابہافی مسائل کثیرۃ مشہورۃ کمسالۃ التثویب فی اذان الصبح واشتراط التحلل فی الحج بعذرالمرض ونحوہ وغیرذلک مماھومعروف ولکن لھذا شرط قل من یتصف بہ فی ھذالازمان وقداوضحتہ فی مقدمۃ شرح المہذب
امام شافعی کا یہ قول ان کے وصایامیں سے متعدد طرق سے ثابت ہے اورامام شافعی نے اس قول کے ذریعہ دین میں احتیاط پر عمل کیا کہ حدیث پر عمل کیاجائے اوران کا جو قول نص ثابت صریح سے مخالف ہو ترک کردیاجائے۔اورہمارے اصحاب(ائمہ فقہاء)نے امام شافعی کے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے بہت سارے مسائل میں ان کے قول کے برخلاف حدیث پر عمل کیاہے جیسے مسالہ تثویب فی الاذان،مرض کی وجہ سے احرام کھول دینے کی شرط اوراس کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل وغیرہ لیکن اس کیلئے کچھ شرائط ہیں ،کم لوگ ہیں جواس زمانہ میں ان سے متصف ہوں گے اوراس کو میں نے واضح کرکے مہذب کے شرح کے مقدمہ میں بیان کیاہے۔
پھراس کے بعد امام نووی نے جو کچھ شرح المہذب کے مقدمہ میں بیان کیاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہلیس معناہ ان کل احد رای حدیثا صحیحاقال ھذامذھب الشافعی وعمل بظاہرہ وانما ھذا فیمن لہ رتبۃ الاجتہاد فی المذہب وشرطہ ان یغلب علی ظنہ ان الشافعی رحمہ اللہ لم یقف علی ھذاالحدیث اولم یعلم صحتہ وھذاانمایکون بعدمطالعۃ کتب الشافعی کلھاونحوہ من اصحابہ الاخذین عنہ ومااشبھھا،وھذاشرط صعب قل من یتصف بہ وانماشرطواماذکرنا لان الشافعی رحمہ اللہ ترک العمل بظاہراحادیث کثیرۃ راھاوعلمھالکن قام الدلیل عندہ علی طعن فیھااونسخھااوتخصیصھااوتاو یلھااونحوذلک(المجموع104/1))
اس قول (اذاصح الحدیث فھومذہبی)کا معنی یہ نہیں ہے ہر کوئی جس نے کوئی صحیح دیکھی توکہنے لگے کہ یہ امام شافعی کا مذہب ہے اوراس کے ظاہر پر عمل کرنے لگے اس قو ل کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا رتبہ کم ازکم اجتہاد فی المذہب کا ہو۔اوراس کی شرط یہ ہے کہ ان کو اپنے گہرے علم وبصیرت اوروسعت اطلاع سے اس کا گمان غالب ہوجائے کہ امام شافعی اس صحیح حدیث سے مطلع نہیں ہوئے یااس حدیث کی صحت ان کومعلوم نہیں تھی اوریہ اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب کوئی امام شافعی کی تمام کتابوں کامطالعہ کرلے اوراسی طرح ان کے شاگردوں کی کتابیں بھی پڑھے لے اوریہ بہت مشکل شرط ہے بہت کم لوگ ہیں جواس شرط کی اہلیت رکھتے ہوں۔یہ شرطیں ہم نے اس لئے ذکر کی ہیں کہ امام شافعیٌ نے خودبہت سارے احادیث کے ظاہر پرعمل نہیں کیاہے حالانکہ ان حادیث کوان کو اطلاع تھی اوران کے صحت سے بھی وہ واقف تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو حدیث میں کسی خرابی،یااس کے منسوخ ہونے یاخاص ہونے یااس حدیث کا کوئی دوسرامطلب ظاہر حدیث کے برخلاف ہونے کے دلائل ان کے پاس تھے ۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام نووی اپنے زمانہ کا رونا رورہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ اس زمانہ میں ان اوصاف سے متصف ہونے والے لوگ بہت کم ہیں جوکہ علوم اسلامیہ کے بہترین دور مین سے ایک ہے اوآج کی حالت یہ ہے کہ ہرایک ہماوشما ائمہ کرام کے ان اقوال کا سہارالے کر مجتہد بننے کی کوشش میں لگاہواہے۔
حافظ ابن صلاح جن کامقدمہ علم اصول حدیث میں مشہور ہے وہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدکے ایک بڑے فقیہہ تھے اورفقہ شافعی میں ان کابڑامقام ومرتبہ ہےچنانچہ وہ اس تعلق سے کہتے ہیں۔
لیس العمل بظاہر ماقالہ الشافعی بالھین،فلیس کل فقیہ یسوغ لہ ان یستقل بالعمل بمایراہ حجۃ من الحدیث وفیمن سلک ھذاالمسلک من الشافعیین عمل بحدیث ترکہ الشافعی رحمہ اللہ عمدامع علمہ بصحتہ لمانع اطلع علیہ وخفی علی غیرہ کابی الولید موسی بن الجارود ممن صحب الشافعی قال صح حدیث افطرالحاجم والمحجوم،فاقول قال الشافعی افطرالحاجم والمحجوم ،فردواذلک علی ابی الولید لان الشافعی ترکہ مع علمہ بصحتہ ،لکونکہ منسوخاعندہ وبین الشافعی نسخہ واستدل علیہ (ادب المفتی والمستفتی 11
امام شافعی نے جوکہاہے اس کے ظاہر کے مطابق عمل آسان نہیں اورہرفقیہ کیلئے یہ روانہیں ہے کہ جوکچھ اس کو حدیث سے سمجھ میں آتاہو اس پرعمل کرے۔شافعیوں میں سے جنہوں نے امام شافعی کے ظاہر قول پر عمل کرتے ہوئے حدیث پر عمل کیاہےاورامام شافعی کے قول کو چھوڑدیاہے جیسے ابوالولید موسی بن جارود۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امام شافعی کے صحبت کاشرف اٹھایاتھا انہوں نے افطرالحاجم والمحجوم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہاتھا کہ (جب امام شافعی نے یہ کہاہے کہ صحیح حدیث ہی میرامذہب تو چونکہ یہ حدیث صحیح ہے)تومیں کہتاہوں کہ امام شافعی کا قول ہے افطرالحاجم والمحجوم ۔لیکن اس سلسلے میں شوافع نے ابوالولید پر اعتراض کیاہے کہ امام شافعی نے اس حدیث کی صحت کی واقفیت کے باوجود بھی اس کوچھوڑدیاہے کیونکہ یہ حدیث امام شافعی کی نظرمیں منسوخ ہےاورامام شافعی نے اس کے منسوخ ہونے کے وجوہات اوردلائل بھی بیان کئے ہیں۔
""معنی قول الامام المطلبی اذاصح الحدیث فھومذہبی "" اس سلسلے میں امام تقی الدین سبکی کا ایک رسالہ بھی ہے
جس میں انہوں نے حقیقت واضح فرمائی ہے۔چنانچہ وہ ابن جارود والا قصہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں
ھذاتبیین لصعوبۃ ھذاالمقام حتی لایغتر بہ کل احد۔یہ قصہ وضاحت کرتاہے کہ یہ مقام کتنا مشکل ہے اس سے کسی کو دھوکہ میں نہیں پڑناچاہئے۔
اس کے بعد امام تقی الدین سبکی اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابوالحسن محمد بن عبدالملک الکرجی الشافعی جو کہ محدث اورفقیہہ دونوں تھے وہ فجر کی نماز میں دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ نے فجر کی نماز میں قنوت ترک کیاہے۔اس کے بعد میں نے بھی ایک مدت تک فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھناچھوڑے رکھا پھر میرے نزدیک یہ بات واضح ہوگئی کہ فجر مین دعائے قنوت پڑھنا ہی صحیح ہے اورامام شافعی کا جوقول اس سلسلے میں ہے وہ درست ہے۔اسی سلسلے میں وہ کہتے ہیںولیس فی شیء من ذلک اشکال علی کلام الشافعی وانماقصور یعرض لنافی بعض النظر
۔اوراس میں کوئی اشکال اوراعتراض امام شافعی کے کلام پر نہیں یہ توہمارے فہم ونظر کاقصور ہے۔
لیکن افسوس اب لوگ اپنے قلت علم کا اورقلت فہم کا اعتراف کرنے کے بجائے ائمہ کرام کو ہی نشانہ بنادیتے ہیں اوران کے اقوال کو ہی غلط ٹھہراتے ہیں۔
اسی رسالہ میں اس تعلق سے انہوں نے ابوشامہ المقدسی کا ایک طویل کلام نقل کیاہے یادرہے کہ ابوشامہ کی مثال شافعیہ میں ویسی ہی ہے جیسے حنفیہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ۔وہ کہتے ہیں
۔ولایتاتی النہوض بھذالامام الامن عالم معلوم الاجتھاد،وھوالذی خاطبہ الشافعی بقولہ،اذاوجدتم حدیث رسول اللہ علی خلاف قولی فخذو بہ ودعو اماقلت ولیس ھذالکل احد(ص106)
اوراس جملہ کا مخاطب مجتہد عالم ہے جس کوامام شافعی نے اپنے قول سے مخاطب کیاہے کہ جب تم میراکوئی قول حدیث رسول کے خلاف دیکھو تواس پر عمل کرو اورمیرے قول کو چھوڑدو ۔اس کامخاطب ہرایک نہیں ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام ابوشامہ بھی اس کااعتراف کررہے ہیں اوروضاحت کررہے ہیں کہ امام شافعی کے اس جملہ کامخاطب ہرایک فرد نہیں ہے اورہرعامی وجاہل اورسند یافتہ عالم نہیں ہے۔بلکہ و ہ ہے جس کے اندر کسی حد تک اجتہاد کی صلاحیتیں ہوں۔قران وحدیث پر گہری نظر اورعلوم اسلامیہ میں گہرارسوخ ہو۔
اسی تعلق سے امام قرافی لکھتے ہیںکثیرمن فقہاء الشافعیۃ یعتمدون علی ھذاویقولون مذہب الشافعیۃکذا ،لان الحدیث صح فیہ،وھوغلط لانہ لابد من انتقاء المعارض ،والعلم بعدم المعارض یتوقف علی من لہ اھلیۃ استقراء الشریعۃ حتی یحسن ان یقال لامعارض لھذاالحدیث۔۔۔۔۔۔فھذاالقائ ل من الشافعیۃ ینبغی ان یحصل لنفسہ اھلیۃ الاستقراء قبل ان یصرح بھذہ الفتیا(شرح التنقیح ص450)بہت سارے شافعی فقہاء اس قول پراعتماد کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں امام شافعی کا مذہب یہ ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث ہے۔اوریہ غلط ہے کیونکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس صحیح حدیث کے خلاف کوئی دوسری مضبوط دلیل نہ ہو۔اوراس بات کا علم کہ فلاں صحیح حدیث کے خلاف کوئی دلیل نہیں شرعی علوم میں گہرے رسوخ کی اہلیت کا تقاضاکرتاہے تاکہ یہ کہاجاسکے کہ اس حدیث کی مخالفت میں کوئی معارض نہیں ہے۔توشافعیہ میں ایساکرنے والوں (یعنی صحیح حدیث کو دیکھ کر امام شافعی کاقول چھوڑدینے اوراس کو امام شافعی کافورامسلک قراردینے )کوچاہئے کہ وہ اپنے اندر شرعی اوراسلامی علوم میں گہرارسوخ اورمہارت پیداکریں۔قبل اس کے کہ وہ اس طرح کے فتاوی جاری کریں۔
حنفیہ میں سے امام ابن شحنہ نے بھی یہی بات کہی ہے ۔
اذاصح الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون بذلک مذھبہ ولایخرج مقلدہ عن کونہ حنیفا بالعمل بہ فقد صح عنہ عن الامام ابی حنیفہ انہ قال اذاصح الحدیث فھومذہبی وقدحکی ذلک ابن عبدالبر عنا بی حنیفہ وغیرہ من الائمہ
مشہور فقیہہ ابن عابدین شامی نے ابن شحنہ کی یہ بات نقل کرکے اس پر لکھاہے۔
ونقلہ ایضاالامام الشعرانی عن الائمۃ الاربعۃ ولایخفی ان ذلک لمن کان اھلاللنظر فی النصوص ،ومعرفۃ محکمھامن منسوخھافاذانظراہل المذہب فی الدلیل وعملوابہ صح نسبتہ الی المذہب(حاشیہ ابن عابدین68/1)
یہ قول امام شعرانی نے ائمہ اربعہ سے نقل کیاہے اوریہ بات کسی پر مخفی نہیں ہونی چاہئے یہ کہ اس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جوکہ نصوص میں غووفکر کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اورمحکم ومنسوخ کی پہچان رکھتے ہوں ۔اب آخر میں بہترہے کہ امام فضیلۃ الشیخ عبدالغفار الحمصی الحنفی کا ایک تبصرہ بھی نقل کردیاجائے۔چنانچہ وہ اپنے رسالہ دفع الاوہام عن مسالۃ القراءۃ خلف الامام میں ابن عابدین کے اس تقیید پر صاد کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
ھوتقیید حسن ،لانانری فی زمانناکثیراًممن ینسب الی العلم مغترافی نفسہ یضن انہ فوق الثریاوھوفی الحضیض الاسفل،فربمایطالع کتابامن الکتب الستۃ مثلافیری فیہ حدیثامخالفاابی حنیفہ فیقول اضربوامذھب ابی حنیفہ علی عرض الحائط وخذوابحدیث رسول اللہ وقدیکون۔ھذاالحدیث منسوخا اومعارضا بماھواقوی منہ سنداًاورنحوذلک من موجباعدم العمل بہ،وھولایعلم بذلک فلوفوض لمثل ھولاء العمل بالحدیث مطلقالضلوافی کثیرمن المسائل واضلومن اتاھم من سائل
یہ قید لگانا(یعنی اس قول کے مخاطب اہل علم اورقران وحدیث میں گہری نظررکھنے والوں کوقراردینا)بہترہے۔اس لئے کہ ہم اپنے زمانے میں بہت سارے لوگوں کودیکھتے ہیں جوکہ نام نہاد اہل علم ہیں اوراپنے آپ سے دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ علم میں وہ ثریاکی بلندیون کوچھوچکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جہالت کے سب سے گہرے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں ۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ ایسے مدعیان علم وتحقیق کتب ستہ میں سے کسی میں کوئی حدیث دیکھتے ہیں جوبظاہر امام ابوحنیفہ کے مسلک کی مخالفت میں ہوتی ہے توکہناشروع کردیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کو دیوار پر ماردو اورحدیث رسول پر عمل کرو۔ جب کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے یااس کے مخالف کوئی اس سے زیادہ قوی حدیث ہوتی ہےیااسی طرح کی کوئی دوسری بات ہوتی ہے جوکہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے اوریہ مدعی علم اس کو نہیں جانتا ۔تواگر عمل بالحدیث کواجازت ان مدعیان علم وتحقیق کو بلاکسی قید ورکاوٹ کے دے دی جائے توبہت سارے مسائل میں یہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوراپنے ساتھ ساتھ فتوی پوچھنے والوں کوبھی گمراہ کریں گے۔
اللہ ہم سب کواپنے دین پرچلنے اوراس پر قائم ودائم رہنے کی توفیق دے ۔آمین
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
اس حدیث سے معلوم ہوا اگر کسی وجہ سے اجتہاد کی ضرورت پیش آجائے تو مجتہد کو حق ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اگر مجتہد کا اجتہاد غلط ہو جائے تو اُس کو ایک اجر ملتا ہے اور اگر صحیح ہو جائے تو دو۔ یہی اصول صحابہ اور ائمہ کے لئے بھی ہے کیوں کہ صھابہ کرام و ائمہ مجتہد تھے۔ اس لے اگر کسی وجہ سے صحابی کی رائے حدیث کے خلاف ہے تو پھر ہم اُس کو اجتھاد پر مہمول کریں گے جس پر مجتہد کو ایک اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔
جس کے نزدیک مجتہد کا اجتہاد غلط تھا وہ اُس کی اتباع یا تقلید کر لے جس کا اجتہاد درست ہے یا جس کو دو اجر دینے کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں تقلید اتباع تو کرنی ہی کرنی ہے۔
اجتہاد ہوتا ہی قرآن و حدیث اورسنت کی بنیاد پر اجتہاد کسی کی پسند یا نا پسند کا نام نہیں ہوتا۔
bhai pehle muje ye bta dijye k nass ki mojoodgi mai ijtehad kia ja sakta hai ya nhi????? ye sawal mai ne pehle b poocha hai magar aap ne jawab nhi dia.
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کتب ستہ میں سے کسی میں کوئی حدیث دیکھتے ہیں جوبظاہر امام ابوحنیفہ کے مسلک کی مخالفت میں ہوتی ہے توکہناشروع کردیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کو دیوار پر ماردو اورحدیث رسول پر عمل کرو۔ جب کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے یااس کے مخالف کوئی اس سے زیادہ قوی حدیث ہوتی ہےیااسی طرح کی کوئی دوسری بات ہوتی ہے جوکہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے اوریہ مدعی علم اس کو نہیں جانتا

میرے بھائی
اب نہ کہنا کہ میں نے کاپی کیا ہے
میں پہلے بھی کئی بار کہ چکا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پر سب کا اتفاق ہے
کہ یہ ساری کی ساری صحیح سند کے ساتھ ہیں
اگر صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی احادیث امام کے کسی قول سے ٹکرا جائیں تو کیا کیا جا ے
آپ نے کہا
یا
تو وہ حدیث منسوخ ھو گی یا اوس سے قوی کوئی اور حدیث ھو گی
آج آپ مجھے بتا دیں کہ نیچے والی احادیث سے قوی کون سی احادیث ہیں
یا یہ بتا دیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں




 
  • Like
Reactions: *Muslim* and DuFFer
Status
Not open for further replies.
Top