کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

  • Work-from-home
Status
Not open for further replies.

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
آپ نے ایسی کون سی بات کی ہے جو میری پوسٹ کے خلاف ہے؟
میں نے تو یہی کہا تھا کہ صحابہ میں علت کے اختلاف کی وجہ سے بھی بعض مسائیل میں اختلاف ہوسکتا ہے۔
ایسا اختلاف ائمہ میں بھی ہوا لیکن اختلاف کی بنا پر کسی کو چھورا نہیں جاسکتا ۔
پھر آپ ہی بتا ئیں جس صحابہ کرام نے نماز عصر ادا کی وہ درست تھے یہ جنھوں نے نماز عصر بنوقریظہ میں ادا کرنے کا کہا وہ صحابہ درست تھے؟
کیوں کہ حضور ﷺ کا فرمان تھا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچے بنا نہ پرھیں لیکن بعض صحابہ کرام نے پڑھ لی
  • وہاں ایک بات یہ تھی کہ کچھ صحابہ نے یہ کہا کہ نبی کریمﷺ نے جو حکم دیا ہے کہ بنو قریظہ میں ہی جا کر نماز ادا کرنی ہے .... انہوں نے کہا کہ آپ کا صریح حکم یہ نا تھا کہ ایسا ہی کریں... بلکہ اس میں صرف یہ تاکید تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچنا ہے
  • اور دوسرے جنہوں نے نبی کریمﷺ کے الفاظ کو من وعن حکم سمجھا،،، انہوں نے رستے میں نماز ادا کرنے کی بجائے وہاں پہنچ کی ادا کرنا بہتر جانا
  • یہ تو واقعی ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کسی کو بھی غلط کہہ سکیں...
  • اب آپ لوگ بتائیں کہ ایک طرف چار میں سے تین ائمہ ایک درست مسئلہ بیان کرتے ہیں.... اور دوسری طرف چار میں سے ایک امام صاحب غلط مسئلہ بیان کرتے ہیں اور پھر وہ غلط مسئلہ بعض اوقات احادیث نبوی تو چھوڑ قرآنی آیات کی صریح مخالفت کرتا نظر آتا ہے...
    تو کیا آپ اس صورت میں بھی اسی امام کی تقلید کریں گے.....

    جب ہم چار ائمہ اہل السنۃ کی تقلید کا نام لیتے ہیں تو کبھی کوئی یہ بتا دے کہ آپ لوگ کسی دوسرے امام کی کیا تقلید کرتے ہیں؟؟؟
  • اجتہاد کو غلط کون کہتا ہے..... اجتہاد کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے....آپ یہ بتایے کہ کیا امام صاحب انسان نہ تھے؟؟؟؟؟؟ وہ کونسی مخلوق ہیں؟؟؟؟
  • اور پھر امام صاحب کے بہت سے اجتہادات صریح قرآنی آیات کے خلاف جب آتے ہیں تو کیا تب بھی آپ ان اجتہادات پر قائم رہیں؟؟؟؟
  • امام صاحب نے فرمایا ہے کہ جس عورت کا خاوند گم ہو جاؤ وہ 80 یا 100 سال تک انتظار کرے اس کے بعد عدت گزارے اور نئی جگہ شادی کر لے
  • اب آپ مجے یہ بتایے کہ اس اجتہاد کے بارے میں کیا آپ اپنے امام صاحب کے کہنے پر عمل کرتے ہیں؟؟؟
  • اور پھر اس پر اصراریہ ہے کہ ... اپنے ہی امام صاحب کی تسلیم کرنی ہے


  • میرا رد کرتے ہوئے کہتے ہو کہ نص کی موجودگی میں اجتہاد نہیں ہوتا اور پھر خود ہی اقرار کرتے ہو قرآن و حدیث کی روشنی میں اجتھاد ہوتا ہے سبحان اللہ یہ ہے آپ کی فراست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آپ پہلے اچھی طرح سوچ لیا کریں کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں اور میری پوسٹ کے خلاف بھی ہے یہ نہیں
  • میرا مقصد آپکو یا آپکی پوسٹ کو غلط ثابت کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے غلطی کا علم ہونے ک باوجود بھی اس پر عمل کرنا کہاں کی jaعقلمندی ہے، میرا کہنے مقصد صرف یہ تھا کہ جہاں الله کے نبی نے حکم دیا ہے وہاں اجتہاد نہی کیا جاتا، جس معاملے میں نص موجود ہو اس میں اجتہاد کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟؟ اگر آپ کے نزدیک نص کی موجودگی میں اجتہاد کرنا جائز ہے تو پھر عقائد میں بھی آپ اجتہاد کرنے کو صحیح سمجھتے ہونگے؟؟ ہے نا؟؟
  • میں نے کب کہا غلط اجتھاد کی تقلید کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن مسائل میں امام احمدؒ، امام شافعیؒ اور امام مالک نے غلط اجتھاد کیا ہے اُن مسائیل میں ہم اُن کی تقلید نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • تقلید بھی کرتے ہیں اور اپنے امام کی باتوں کو رد بھی کرتے ہیں یہ تو تقلید نا ہوئی. تقلید تو اپنے امام کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا نام ہے، آپ اپنے باقی حنفی بھائیوں سے بھی پتہ کر لیجیے کہ وو آپکی اس بات سے متفق ہیں یا نہیں؟؟
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
اوپر والی پوسٹ میں کچھ الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہیں، میں دوبارہ سے اپنا جواب یہاں پوسٹ کر رہی ہوں تا کہ پڑھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی رہے.
میرا مقصد آپکو یا آپکی پوسٹ کو غلط ثابت کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے غلطی کا علم ہونے ک باوجود بھی اس پر عمل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، میرا کہنے مقصد صرف یہ تھا کہ جہاں الله کے نبی نے حکم دیا ہے وہاں اجتہاد نہی کیا جاتا، جس معاملے میں نص موجود ہو اس میں اجتہاد کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟؟ اگر آپ کے نزدیک نص کی موجودگی میں اجتہاد کرنا جائز ہے تو پھر عقائد میں بھی آپ اجتہاد کرنے کو صحیح سمجھتے ہونگے؟؟ ہے نا؟؟
[DOUBLEPOST=1349875865][/DOUBLEPOST]
ایک بات یہ بھی یاد رکھیں اگر کسی مسلے پر صحیح حدیث موجود ہو لیکن کبھی کبھی اس حدیث کی بنیاد پر فتویٰ نہیں دیا جاتا کیوں کے بعض کے نزدیک وہ صحیح حدیث منسوخ بھی ہوتی ہے۔
جس کے نزدیک صحیح حدیث منسوخ ہوتی ہے وہ اُس حدیث کی ناسخ حدیث کے تحت عمل کرلیتا ہے۔
اب دیکھیں حدیث کو صحیح ہوتی ہے لیکن منسوخ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں کیا جاتا۔ صرف حدیث کی کتابوں میں حدیث دیکھ لینے سے عمل نہں ہوتا بلکہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ ناسخ منسوخ کو سمجھتے ہوئے عمل کیا جاتا ہے۔
آپ کو علم بھی ہے کہ آپ کس طرح سے صحیح حدیث کا انکار رہے ہیں. صحیح حدیث کبھی منسوخ بھی ہوتی ہے؟؟؟؟
ٹھیک کہا آپ نے کہ صرف حدیث کی کتابوں میں حدیث دیکھ لینے سے عمل نہیں ہوتا. بلکہ اسکی صحت کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ صحیح ہے یا ضعیف..
مگر کوئی اگر صحیح حدیث کا بھی رد کر دے اور یہ اپنے آپکو پھر بھی حق پر سمجھے تو سواۓ افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا. کیوں کہ اسکی نظر میں تو صحیح احادیث ہی مشکوک ہو گئی ہیں، تو اب حوالہ دینے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہے. کیوں کہ وہ شخص صرف اپنے مطلب کی احادیث لے کر باقی احادیث کو یہ کہ کر رد کر دیگا کہ یہ منسوخ ہیں.درحقیقت اصل بات تو یہ ہے کہ وہ حدیث انکی فقہ کی کتابوں میں درج نہیں ہے یا پھر انکی فقہ اس حدیث کہ خلاف کہ رہی ہے...اس پر انتہا یہ کہ وہ لوگ اپنے آپکو اہل سنت کہتے ہیں.​
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
میرا مقصد آپکو یا آپکی پوسٹ کو غلط ثابت کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے غلطی کا علم ہونے ک باوجود بھی اس پر عمل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، میرا کہنے مقصد صرف یہ تھا کہ جہاں الله کے نبی نے حکم دیا ہے وہاں اجتہاد نہی کیا جاتا، جس معاملے میں نص موجود ہو اس میں اجتہاد کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟؟
جی محترمہ آپ نے بالکل درست فرمایا جہاں اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا صریح ، غیر متعارض اور محکم حکم ہوگا وہاں نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ ہی ایسے مقام پر مقلدین تقلید کے قائل ہیں
باقی الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
آپ کو علم بھی ہے کہ آپ کس طرح سے صحیح حدیث کا انکار رہے ہیں. صحیح حدیث کبھی منسوخ بھی ہوتی
ہے؟؟؟؟
محترمہ آپ کے علم میں نہیں شاید کہ صحیح احادیث پاک میں بھی منسوخ احکامات موجود ہیں ۔۔۔ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کی ایک حدیث جو شروع اسلام میں حکم تھا بعد میں منسوخ ہوگیا تھا
حدیث نمبر : 292
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى وأخبرني أبو سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد الجهني أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان فقال أرأيت إذا جامع الرجل امرأته فلم يمن‏.‏ قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره‏.‏ قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فسألت عن ذلك علي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك‏.‏ قال يحيى وأخبرني أبو سلمة أن عروة بن الزبير أخبره أن أبا أيوب أخبره أنه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی
ٹھیک کہا آپ نے کہ صرف حدیث کی کتابوں میں حدیث دیکھ لینے سے عمل نہیں ہوتا. بلکہ اسکی صحت کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ صحیح ہے یا ضعیف..
مگر کوئی اگر صحیح حدیث کا بھی رد کر دے اور یہ اپنے آپکو پھر بھی حق پر سمجھے تو سواۓ افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا. کیوں کہ اسکی نظر میں تو صحیح احادیث ہی مشکوک ہو گئی ہیں، تو اب حوالہ دینے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہے. کیوں کہ وہ شخص صرف اپنے مطلب کی احادیث لے کر باقی احادیث کو یہ کہ کر رد کر دیگا کہ یہ منسوخ ہیں.درحقیقت اصل بات تو یہ ہے کہ وہ حدیث انکی فقہ کی کتابوں میں درج نہیں ہے یا پھر انکی فقہ اس حدیث کہ خلاف کہ رہی ہے...اس پر انتہا یہ کہ وہ لوگ اپنے آپکو اہل سنت کہتے ہیں.
صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتا ہے
تو محترمہ کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص منصفانہ طور پر ان نکات کو مد نظر رکھے تو یقینا اس کے بعد اُس کو(صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں پر) "مخالفت حدیث" کے سنگین الزام کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ انتہائی معمولی بات سمجھنے کی پوزیشن میں آئے گا کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے(صریح غیر متعارض اور محکم) حکم سے بغاوت کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ؟؟؟؟ وہ بات عام کروڑوں مسلمانوں کو تو چھوڑیں بلکہ دنیائے اسلام کی جید جید ہستیاں کیسے نہیں سمجھ سکتیں ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے۔جزاک اللہ

 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اگر کوئی شخص منصفانہ طور پر ان نکات کو مد نظر رکھے تو یقینا اس کے بعد اُس کو(صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں پر) "مخالفت حدیث" کے سنگین الزام کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ انتہائی معمولی بات سمجھنے کی پوزیشن میں آئے گا کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے(صریح غیر متعارض اور محکم) حکم سے بغاوت کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ؟؟؟؟ وہ بات عام کروڑوں مسلمانوں کو تو چھوڑیں بلکہ دنیائے اسلام کی جید جید ہستیاں کیسے نہیں سمجھ سکتیں ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے۔جزاک اللہ


سلف رضوان اﷲ علیہم ان لوگوں کی شدید مذمت کرتے تھے جو اپنی آراء یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے احادیث کا انکار کرتے ہیں بلکہ سلف تو ایسے لوگوں سے تعلق ہی ختم کردیتے تھے حدیث کی تعظیم وتوقیر کی خاطرجیسا کہ مسلم میں سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))
’’اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ’’اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے‘‘ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟‘‘
بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔
بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں :ایک شخص نے ابن عمررضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اوربوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابن حجر رحمہ اﷲ ’فتح الباری ‘میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہاتھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو ۔ابن عباس رضی اﷲعنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابوبکررضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟
علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ جب ابن عباس رضی اﷲعنہ ابوبکروعمررضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں تو پھر اس شخص کوکیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بناپر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنارہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ
(التوبۃ:۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر‘‘۔
(تیسیرالعزیزالحمید:۵ ۴۴،۵۴۵)
ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے) اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔
(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)
آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں ۔اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے ،فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذہیں ) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں ۔
ابویعلی رحمہ اﷲ نے( طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ’’البیعان بالخیار‘‘والی حدیث نہیں لیتے ،تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲنے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ ا س کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے) سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں ،حدیث کومکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہووہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
(احزاب:۳۶)
’’جب اﷲ اور اس کارسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیارنہیں رہتا‘‘۔
دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے ۔
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء:۶۵)
’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہاجاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے ؟یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے ۔ اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں ) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
(اعلام الموقعین :۴/۲۵۴،۲۴۴)
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
لیجیے محترمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

مسئلہ کچھ بھی ہو کوئی کچھ بھی بات کررہا ہو لیکن مجال ہے کہ یہ صاحب سوال کے مطابق خود سے لکھ کر جواب دیں ۔
انہوں نے صرف اور صرف مواد کو کاپی پیسٹ مارنا ہے ۔
اس سے اچھے تو ہم مقلد ہیں جو کم از جو بات شئیر کرتے ہیں وہ سمجھ کر کرتے ہیں جو نہیں معلوم ہوتی اُس پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔
ہمارے پاس بھی کافی مقدارمیں مواد موجود ہوتا ہے جس کو کاپی پیسٹ مار سکتے ہیں ۔
لیکن الحمدللہ یہ ہمارے بزرگوں کی تعلیم نہیں کہ مسئلہ کچھ بھی ہو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن لیکن کچھ نہ کچھ مواد کاپی پیسٹ کرنا بہت ضرورری ہے
آپ خود ایمانداری سے جواب دیں کہ مقلد کی تقلید زیادہ اندھی ہے یا تقلید نہ کرنے والا مقلد سے زیادہ اندھا دھند تقلید کرتا ہے ؟؟؟
(اب خود ملاحظہ کجیے گا کہ اگلی پوسٹ میں ایک اور کاپی پیسٹ مواد حاضر ہونے والا ہے چاہے وہ موضوع کی مناسبت سے ہو یا نہ ہو
باقی سارے نکات اوپر پیش کردئیے گئے ہیں ۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ حضرات فقہائے کرام رحمھم اللہ کا قرآن و حدیث کی نصوص میں اس قدر باریکی سے محتاط ہونے کی وجہ صرف اور صرف اُسی ماہر سرجن کی مانند ہے جو آپریشن کے دوران انتہائی محتاط انداز میں ہر ایک پہلو پر گہری نظر رکھتا ہے ۔
کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی معمولی کوتاہی ایک انسانی جان کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے ۔
اسی طرح جب فقہائے کرام کسی مسئلہ پر انتہائی غور تدبر فرماتے ہیں تو فقہائے کرام کی اس انتہائی احتیاط کا سبب کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ اُن کے سامنے پوری امت مسلمہ ہوتی ہے ۔
جس میں کوتاہی کا مطلب پوری امت مسلمہ کا نقصان ہوسکتا ہے ۔
لہذا اگراس نکتہ کو بھی مد نظر رکھا جائے تو یقینا مزید کئی اشکالات سمجھنے میں آسانی رہے گی کہ کیوں عام لوگوں کو بنا علم سیکھے قرآن و حدیث پر رائے زنی کرنے سے روکا جاتا ہے ۔
کیوں کہ عام شخص یا کسی عام عالم کی مثال ایک ماہر ترین سرجن کے مقابلے میں ایک عام شخص یا عام ڈاکٹر کی سی ہے ۔۔
۔جو سرجن کا آپریشن دیکھتے ہوئے خود سے آپریشن کرنے کی تمنا رکھتا ہے ۔
اور اس کوشش کا انجام کیا ہو سکتا ہے وہ نہ صرف معمولی عقل و فہم رکھنے والا سمجھ سکتا ہے بلکہ اس کی کئی زندہ مثالیں ہم اسی فورم پربھی دکھا سکتے ہیں
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
 

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
لیجیے محترمہ ملاحظہ فرمائیں ۔


مسئلہ کچھ بھی ہو کوئی کچھ بھی بات کررہا ہو لیکن مجال ہے کہ یہ صاحب سوال کے مطابق خود سے لکھ کر جواب دیں ۔
انہوں نے صرف اور صرف مواد کو کاپی پیسٹ مارنا ہے ۔
اس سے اچھے تو ہم مقلد ہیں جو کم از جو بات شئیر کرتے ہیں وہ سمجھ کر کرتے ہیں جو نہیں معلوم ہوتی اُس پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔
ہمارے پاس بھی کافی مقدارمیں مواد موجود ہوتا ہے جس کو کاپی پیسٹ مار سکتے ہیں ۔
لیکن الحمدللہ یہ ہمارے بزرگوں کی تعلیم نہیں کہ مسئلہ کچھ بھی ہو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن لیکن کچھ نہ کچھ مواد کاپی پیسٹ کرنا بہت ضرورری ہے
آپ خود ایمانداری سے جواب دیں کہ مقلد کی تقلید زیادہ اندھی ہے یا تقلید نہ کرنے والا مقلد سے زیادہ اندھا دھند تقلید کرتا ہے ؟؟؟
(اب خود ملاحظہ کجیے گا کہ اگلی پوسٹ میں ایک اور کاپی پیسٹ مواد حاضر ہونے والا ہے چاہے وہ موضوع کی مناسبت سے ہو یا نہ ہو
باقی سارے نکات اوپر پیش کردئیے گئے ہیں ۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ حضرات فقہائے کرام رحمھم اللہ کا قرآن و حدیث کی نصوص میں اس قدر باریکی سے محتاط ہونے کی وجہ صرف اور صرف اُسی ماہر سرجن کی مانند ہے جو آپریشن کے دوران انتہائی محتاط انداز میں ہر ایک پہلو پر گہری نظر رکھتا ہے ۔
کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی معمولی کوتاہی ایک انسانی جان کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے ۔
اسی طرح جب فقہائے کرام کسی مسئلہ پر انتہائی غور تدبر فرماتے ہیں تو فقہائے کرام کی اس انتہائی احتیاط کا سبب کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ اُن کے سامنے پوری امت مسلمہ ہوتی ہے ۔
جس میں کوتاہی کا مطلب پوری امت مسلمہ کا نقصان ہوسکتا ہے ۔
لہذا اگراس نکتہ کو بھی مد نظر رکھا جائے تو یقینا مزید کئی اشکالات سمجھنے میں آسانی رہے گی کہ کیوں عام لوگوں کو بنا علم سیکھے قرآن و حدیث پر رائے زنی کرنے سے روکا جاتا ہے ۔
کیوں کہ عام شخص یا کسی عام عالم کی مثال ایک ماہر ترین سرجن کے مقابلے میں ایک عام شخص یا عام ڈاکٹر کی سی ہے ۔۔
۔جو سرجن کا آپریشن دیکھتے ہوئے خود سے آپریشن کرنے کی تمنا رکھتا ہے ۔
اور اس کوشش کا انجام کیا ہو سکتا ہے وہ نہ صرف معمولی عقل و فہم رکھنے والا سمجھ سکتا ہے بلکہ اس کی کئی زندہ مثالیں ہم اسی فورم پربھی دکھا سکتے ہیں
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
jazakAllah...
ameen
 

Jahil

Banned
Jul 1, 2011
9,323
3,289
363
Karachi
جی محترمہ آپ نے بالکل درست فرمایا جہاں اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا صریح ، غیر متعارض اور محکم حکم ہوگا وہاں نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ ہی ایسے مقام پر مقلدین تقلید کے قائل ہیں
باقی الحمدللہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ غلطی ہر کسی سے ہوسکتی ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ غلطی کا تعین کون کرے گا؟؟؟؟
اور آپ کے نزدیک جو بھی غلطی کا تعین کرسکتا ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ غلطی متعین کرنے والا خطاء سے پاک ہوسکتا ہے ؟؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ تو پھر غلطی کا امکان تو پھر بھی باقی رہا ؟؟؟
بات صرف اتنی ہے کہ ایک ہوتا ہے ہمارے جیسا عامی ۔۔۔۔اور ایک مقام ہے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کا ۔۔۔۔اُس کے بعد جو مقام آتا ہے وہ سرجن یا اسپیشلسٹ کا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سرجن یا اسپیشلسٹ میں بھی سینئر جونیئر اور تجربہ کا اور انتہائی تجربہ کا درجے ہیں
اب اس کے بعد آپ یہ نکتہ سمجھیں کہ کسی بھی آپریشن کے کرنے میں ہر درجہ کے ماہر سے غلطی کا امکان اپنی جگہ برقرار ہے
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کس درجہ کے ماہر سے غلطی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے
یعنی جس طرح ایک ماہر ترین سرجن سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے لیکن اس ماہر ترین سرجن سے کئی گنا زیادہ غلطی کا امکان ایک صرف سینئر سرجن سے ہوگا
اسی طرح اس سینئر سرجن سے جتنا غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔۔۔لیکن ایک جونیئر سرجن سے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوسکتا ہے ۔۔
لیکن جب کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایسا ہی آپریشن کا سوچ لے تو یقینا اس ڈاکٹر سے سینکڑوں گنا زیادہ غلطی کا امکان بڑھ جائے گا بہ نسبت اُس ماہر ترین سرجن کے جس نے اپنی زندگی اسی شعبہ میں گذاردی اور ہر ہر پہلو کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا ۔۔۔اور آپریشن میں موجود انتہائی باریکیوں پر بھی گہری نگاہ رکھی
تو کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب آپ انتہائی ماہر سرجن کو حضرات فقہائے کرام سمجھ لیں
اور سینئر سرجن کی جگہ بعد کے آنے والے فقہاء کرام سمجھ لیں
اور جونئیر سرجن کی جگہ متاخرین مجتہدین سمجھ لیں
اور ڈاکٹرز کی جگہ آپ علماء کرام کو سمجھ لیں
اور اب خود فیصلہ کرلیں کہ کس سے غلطی کا امکان کتنا زیادہ ہے
اور کس سے مریض کی جان کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے
اور مریض کو کس درجہ کے ماہر سے علاج کروانا چاہیے۔۔۔۔یہ ہمیں بتانے کی ضروت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ جہاں غلطی کا امکان کم سے کم ہو علاج اُس سے ہی کروانا بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

محترمہ آپ کے علم میں نہیں شاید کہ صحیح احادیث پاک میں بھی منسوخ احکامات موجود ہیں ۔۔۔ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کی ایک حدیث جو شروع اسلام میں حکم تھا بعد میں منسوخ ہوگیا تھا
حدیث نمبر : 292
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى وأخبرني أبو سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد الجهني أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان فقال أرأيت إذا جامع الرجل امرأته فلم يمن‏.‏ قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره‏.‏ قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فسألت عن ذلك علي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك‏.‏ قال يحيى وأخبرني أبو سلمة أن عروة بن الزبير أخبره أن أبا أيوب أخبره أنه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی

صحیح احادیث اور ضعیف احادیث ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو عام طور پر اکثرلوگ بہت سیدھا سادھا سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درحقیقت اس موضوع میں کئی پہلو موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اور انہی پہلوؤں کو نہ مد نظر رکھنے کے سبب اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ مقلدین حضرات احادیث پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ اتنی معمولی بات ہے جو مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے سب سے پہلا قدم ہی اللہ رب العزت پر اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا ہے ۔۔۔۔۔اس سے انکار کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ۔؟؟؟؟
تو پھر یہ معمولی بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ خامی کسی شخس کو صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں میں نظر آتی محسوس رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ تو پھر یقینا اُس شخص کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔اور اُس شخص کو آخرت کی فکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے اُن کروڑوں مسلمانوں کا موقف سننے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ سمجھنے میں کیا غلطی ہورہی ہے ؟؟؟ کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک بچہ بھی جانتا ہے ۔۔۔۔۔ اُس بات کو صدیوں سے دنیائے اسلام کےکروڑوں مسلمان کیسے نظر انداز کرتے ہوئے ائمہ اربعہ کی تقلید کررہے ہیں ؟؟؟؟
جن میں دنیائے اسلام کے جید محدثین کرام ،شارحین کرام ،مفسرین کرام وغیرھم بھی شامل ہیں ؟؟؟
لہذا ہم اپنے انتہائی محدود علم کی مناسبت سے چند نکات پیش کردیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے ان نکات پر غور فرمائیں گی تو یقینا آپ کے ذہن سے مقلدین کے لئے مخالفت حدیث کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔اللہ تعالیٰ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح احادیث پاک صرف بخاری و مسلم میں ہی منحصر نہیں بلکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اس ہر ہے کہ اس کی اسناد اصول حدیث کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ چناچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ بے شمار ائمہ حدیث نے احادیث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں اُن میں جو بھی مذکورہ شرائط پر پوری اترتی ہو وہ صحیح حدیث ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو حدیث صحیحین کے علاوہ کسی اور کتاب میں مذکور ہو وہ لازما مرجوح ہی ہو ،بلکہ دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کتابوں کی کوئی حدیث سندا صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہوسکتی ہے مثلا ابن ماجہ جو صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں صحیحین میں بھی اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں آئیں (ملاحظہ ہو ماتمس الیہ الحاجۃ)
لہذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہنا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین میں یا صحاح ستہ میں موجود نہیں ۔۔۔۔ بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ۔؟؟
دوسری اہم بات یہ ہےکہ احادیث پاک میں ناسخ منسوخ احکامات ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا مکمل علم رکھے بنا کوئی شخص کسی پر مخالفت حدیث کا الزام نہیں لگا سکتا
تیسری بات یہ ہے کہ شروع کا دور جو نبوت سے قرب رکھتا ہے ۔۔۔اُس دور میں جبکہ جھوٹ اور دھوکہ عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اُس قرب کے دور کے محدثین کرام اور فقہائے کرام تک روایات جوقلیل اسناد کے ساتھ پہنچی ۔۔۔۔۔ وہ بعد کے ادوار کے محدثین کرام یا فقہائے کرام تک ضعیف ،مجہول رواۃ شامل ہونے کے سبب یا روایت منقطع پہنچی جس کی بنا پر بعد کے فقہائے کرام یا محدثین کرام نے اُس کے مطابق فتوی جات دئیے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بھی فقہائے کرام میں اختلاف ہوا۔۔۔
"چناچہ حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے"رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔
اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم لقضية‏.‏(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ احادیث پاک کی صحت کا مدار جرح و تعدیل پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی علم میں ہوگا کہ جرح و تعدیل بذات خود اجتھاد سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ جرح و تعدیل میں کئی اختلاف کی مثالیں موجود ہیں ۔۔۔۔ تو واضح ہوتا ہے کہ حدیث پر صحت و ضعف کا حکم کا تعلق بھی اجتہاد سے ہے ۔۔۔۔۔ جس میں خطاء کا احتمال رہتا ہے
پانچویں بات یہ کہ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن پر دو یا دو سے زائد نصوص ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے ایک نص کو راجع قرار دینے کے لئے اجتھاد کیا جاتا ہے
چھٹی بات وہی ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ایک حکم دیا لیکن اُس حکم میں دو معنی نکل آئے اور صحابہ کرام کی دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق الگ الگ طریقے سے حکم پر عمل کیا ۔۔۔۔۔ اسی طرح بہت سے ایسی نصوص ہیں جن میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آتا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں اجتھاد سے کسی ایک معنی کو متعین کرکے عمل کیا جاتا ہے
تو محترمہ کہنے کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص منصفانہ طور پر ان نکات کو مد نظر رکھے تو یقینا اس کے بعد اُس کو(صدیوں سے دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں پر) "مخالفت حدیث" کے سنگین الزام کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ انتہائی معمولی بات سمجھنے کی پوزیشن میں آئے گا کہ جو بات مسلمان گھرانے کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے(صریح غیر متعارض اور محکم) حکم سے بغاوت کرکے کوئی کیسے مسلمان رہ سکتا ہے ؟؟؟؟ وہ بات عام کروڑوں مسلمانوں کو تو چھوڑیں بلکہ دنیائے اسلام کی جید جید ہستیاں کیسے نہیں سمجھ سکتیں ؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے۔جزاک اللہ

kya yaar ap lgoon ke pas deen e islaam ki tableegh ke lye doctors engineers seniors or junior sergeants ki hi misaalen reh gayin hain? ap log deen ki tableegh kar rhe hain ya duniyavi proffessionals ki?
chalen maan lya ap deen ki tableegh kar rhe hain to phir deen ki tableegh ke lye ap qurani ayaton ki ahadees e nabvi SAW ki misaalen kyun nhi dete sahaba karaam ki misaalen kyun nhi dete?
chalen isse b choren i know ap logon ke nazdeek quran pak ke ehkaamat or nabi kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke irshadaat koi value nhi rakhte aap mujhe sirf 2 baton ke javab bata den ke

1..agar islaam main se quran pak or ahadees e nabvi kharij kardi jain yani un per amal karna khtam kardya jai to islaam baqi raha?

2..agar islaam main se tamaam imaamon ke aqwaal kharij kar diye jain to islaam main kya farq para?

plz in do baton ke javab zaror di jiyega mujhe hamesha ki tarha meri posting main faults nikaal ker reply goul mat kr di jiyega[DOUBLEPOST=1349952630][/DOUBLEPOST]
لیجیے محترمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

مسئلہ کچھ بھی ہو کوئی کچھ بھی بات کررہا ہو لیکن مجال ہے کہ یہ صاحب سوال کے مطابق خود سے لکھ کر جواب دیں ۔
انہوں نے صرف اور صرف مواد کو کاپی پیسٹ مارنا ہے ۔
اس سے اچھے تو ہم مقلد ہیں جو کم از جو بات شئیر کرتے ہیں وہ سمجھ کر کرتے ہیں جو نہیں معلوم ہوتی اُس پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔
ہمارے پاس بھی کافی مقدارمیں مواد موجود ہوتا ہے جس کو کاپی پیسٹ مار سکتے ہیں ۔
لیکن الحمدللہ یہ ہمارے بزرگوں کی تعلیم نہیں کہ مسئلہ کچھ بھی ہو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن لیکن کچھ نہ کچھ مواد کاپی پیسٹ کرنا بہت ضرورری ہے
آپ خود ایمانداری سے جواب دیں کہ مقلد کی تقلید زیادہ اندھی ہے یا تقلید نہ کرنے والا مقلد سے زیادہ اندھا دھند تقلید کرتا ہے ؟؟؟
(اب خود ملاحظہ کجیے گا کہ اگلی پوسٹ میں ایک اور کاپی پیسٹ مواد حاضر ہونے والا ہے چاہے وہ موضوع کی مناسبت سے ہو یا نہ ہو
باقی سارے نکات اوپر پیش کردئیے گئے ہیں ۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ حضرات فقہائے کرام رحمھم اللہ کا قرآن و حدیث کی نصوص میں اس قدر باریکی سے محتاط ہونے کی وجہ صرف اور صرف اُسی ماہر سرجن کی مانند ہے جو آپریشن کے دوران انتہائی محتاط انداز میں ہر ایک پہلو پر گہری نظر رکھتا ہے ۔
کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی معمولی کوتاہی ایک انسانی جان کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے ۔
اسی طرح جب فقہائے کرام کسی مسئلہ پر انتہائی غور تدبر فرماتے ہیں تو فقہائے کرام کی اس انتہائی احتیاط کا سبب کوئی ایک شخص نہیں ہوتا بلکہ اُن کے سامنے پوری امت مسلمہ ہوتی ہے ۔
جس میں کوتاہی کا مطلب پوری امت مسلمہ کا نقصان ہوسکتا ہے ۔
لہذا اگراس نکتہ کو بھی مد نظر رکھا جائے تو یقینا مزید کئی اشکالات سمجھنے میں آسانی رہے گی کہ کیوں عام لوگوں کو بنا علم سیکھے قرآن و حدیث پر رائے زنی کرنے سے روکا جاتا ہے ۔
کیوں کہ عام شخص یا کسی عام عالم کی مثال ایک ماہر ترین سرجن کے مقابلے میں ایک عام شخص یا عام ڈاکٹر کی سی ہے ۔۔
۔جو سرجن کا آپریشن دیکھتے ہوئے خود سے آپریشن کرنے کی تمنا رکھتا ہے ۔
اور اس کوشش کا انجام کیا ہو سکتا ہے وہ نہ صرف معمولی عقل و فہم رکھنے والا سمجھ سکتا ہے بلکہ اس کی کئی زندہ مثالیں ہم اسی فورم پربھی دکھا سکتے ہیں
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

yar ap lovely bro ki puri post oper se le ker neeche tak parhen usne ek baat b apni marzi se nhi kahi balke har baat ko mustanind hadees se sabit kya hai beshak usne kahin se copy pest kya hai lekin apni koi soch apna koi nazriya islaam main zabardasti nhi thonsa
theek haina ap agree karte haina is baat se?
dusri tarf ap apni yeh post dekhen apne koi ek misaal b quran pak ya nabi kareem ki ahadees se nhi di balke wohi sergeant ka operation or ek aam admi or ek aalim ki misaalen sunayin hain
theek haina ap is baat se b agree karte haina?

to mujhe sirf yeh batain ke ek nutral banda jo na apke firqe se hai na mere firqe se hai or jo sirf haq janna chah raha hai to us insaan per apki doctors sergeants or engineers wali baaten asar karengi
ya Rasool Allah ke farmaan asar karenge?[DOUBLEPOST=1349953147][/DOUBLEPOST]or mujhe admins or mod hazraat se sirf yeh janna hai ke agar yeh islaami section hai to yahan islaami taleemaat ke bajai doctors engineers sergents or aam o khaas admiyon ki misaalen kyun likhi ja rahi hain?
or agar islaami sections main doctors engineers or sergents ki kahaniyan likhna allow hai to plz mujhe b ijazat de den mere pas b ek se ek doctors or engineers ki ek se ek achi or sabaq amooz kahaniyan mojod hain main woh bhi share kr deta hon yahan threads laga ker

@Don
@Zee Leo
@hoorain
 
Status
Not open for further replies.
Top